• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی کو یاد ہو کہ یا نہ یادہو ہمارا ایک ازلی دشمن ہوا کرتا تھا، بھارت۔یہ وہ ملک تھا جس سے ہمارے وجود کو خطرہ تھا کیونکہ اکھنڈ بھارت منصوبے کے تحت اِس نے پاکستان کو ضم کرکے سن 47 والامتحدہ ہندوستان بحال کرناتھا۔ممکن ہےآج کسی کو یہ بات عجیب لگے مگر اسّی کی دہائی میں یہ باتیں ذرا بھی عجیب نہیں لگتی تھیں، اُن دنوں ہمیں بتایاجاتا تھا کہ اگر ہم اکھنڈ بھارت سے بچنا چاہتے ہیں تو بھارت کے مقابلے میں ہمیں کم از کم دفاعی صلاحیت برقراررکھنی چاہیے لہٰذا اِسی پالیسی کے تحت ہمارا دفاعی بجٹ بھارت کے مقابلے میں ایک تہائی ہوتا تھا ۔مجھے یاد ہے کہ اُس وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں پاکستان اور ہندوستان کی افواج، جنگی جہازوں اور آبدوزوں کا تقابلی جائزہ شائع ہوا کرتا تھا جس میں با تصویر انداز میں دکھایا جاتا تھا کہ کیسے پاکستان بھارت کی جنگی جارحیت کا جواب دینے کی پوزیشن میں ہے ۔یہ بحث بھی اسی دور کی ہے کہ کیا ہمیں بھارت کے ساتھ جنگی سازو سامان کی دوڑ لگانی چاہیے یا نہیں ۔محب وطن تجزیہ کار اِس اعتراض کا منہ توڑ جواب دے کر کہتے تھے کہ ہم تو اِس دوڑ میں شامل ہی نہیں ، ہم تو فقط اپنے دفاع کا انتظام کررہے ہیں کیونکہ جہاں بھارت جیسا دشمن ہر وقت ہماری تاک میں ہو وہاں چوکس رہنا ضروری ہے ۔ اِس استدلال سے اکثر لوگ ریاستی پالیسی کے قائل ہوجاتے تھے البتہ اِکّا دُکّاتجزیہ کار’دشمن کے پروپیگنڈے کے زیر اثر ‘ اشاروں کنایوں میں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے تھے کہ بھارت کے ساتھ جنگی ہتھیاروں کی یہ دوڑ ایک دن ہمیں لے ڈوبے گی کیونکہ ہماری معیشت میں اتنا دم نہیں کہ بھارت کے جنگی جنون کا مقابلہ کرسکے ۔ اُس وقت ہمیں لگتا تھا کہ یہ شکست خوردہ عناصر ہیں جودراصل بیمار ذہنیت اور سوچ کے حامل ہیں لہٰذا اِن کی باتوں پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں ۔ رہی سہی کسر 23 مارچ کی فوجی پریڈپوری کر دیتی تھی،جب ہم ٹی وی پر اپنی شان و شوکت دیکھتے تو ہمارا سر فخر سے تن جاتا ،عجیب و غریب قسم کے ٹینک اور اُن پر لدے ہوئے خوفناک میزائل،بکتر بند گاڑیاں، فضا میں قلابازیاں لگاتے، نیلی پیلی دھاریاں بناتےایف سولہ طیارے جب ایک دوسرے کے پاس سے زن کرکے گزرتےتو ہمارے لبوں پر بے ساختہ دل گرمادینے والا کوئی ملی نغمہ آجاتااور اُس پراظہر لودھی کی کمنٹری سونے پر سہاگے کا کام کرتی۔یہ تھی اسّی کی دہائی اور یہ تھا ہمارا لڑکپن۔

وقت گزرا اور ہمیں تھوڑی بہت عقل آگئی ۔ بھارت ہمارا دشمن ہی رہا مگر اب ہم نے دانشوری جھاڑنی شروع کردی، ہم بھارت کے ساتھ جنگی ہتھیاروں کی دوڑ لگانے کے خلاف تو ہوگئے مگر یہ تسلیم نہیں کیا کہ ہم بھارت سے کسی میدان میں پیچھے ہیں۔جب بھی ہمیں بھارت کی کامیابی کی خبر سنائی جاتی تو ہم جھٹ سے ممبئی کی غربت کے اعدادو شمار نکال کر لے آتے اور خود کو یہ کہہ کر تسلی دیتے کہ پاکستان کے کسی بڑے شہر میں ایسی کچی بستیاں نہیں، لوگ فٹ پاتھ پر نہیں سوتے، کوئی شخص بھوکا نہیں مرتا، کسی غریب کی بیٹی کی ڈولی جھونپڑی سے نہیں اٹھتی اور کوئی ماں اپنے بچے فروخت نہیں کرتی ۔ اِن باتوں میں چونکہ صداقت بھی تھی سو یہ چُورن ہمیں راس آگیا اور ہماراہاضمہ کافی عرصے تک درست رہا۔

چند سال اور گزر گئے۔بھارت میں مودی کی فاشسٹ سرکار آگئی ، اُس نے مسلمانوں کے ساتھ وہ سلوک کیاکہ پاکستان کا لبرل سے لبرل مسلمان بھی کانپ اٹھا ، آئے روز ہمیں بھارتی مسلمانوں کے خلاف مظالم کی خبریں ملنے لگیں،یہ خبریں سُن کر ہم دکھ ،افسوس اور بے بسی کا اظہار تو کرتے ہی مگر ساتھ میں شکر بھی ادا کرتے کہ قائد اعظم نے ہمارے لئے علیحدہ ملک بنا لیا ورنہ ہم بھی آر ایس ایس کے جنونیوں کے نرغے میں جے شری رام کا نعرہ نہ لگانےکی پاداش میں سنگسار کردیے جاتے ۔ہم جیسے لکھاریوں نے بھی بی جے پی کے فاشزم کے خلاف لکھا، شاہ رُخ خان اور عامر خان کی فلموں کے بائیکاٹ پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ہندوستان میں مسلمانوں سے نفرت اور دشمنی اب اِس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اِن جیسےسپرا سٹار بھی اُس سے محفوظ نہیں ۔آج صورتحال یہ ہے کہ بھارتی مسلمان رکن اسمبلی کوگولی مار کرقتل کردیا جاتا ہے ، قاتل جے شری رام کا نعرہ لگاتاہے اوریہ قتل ٹی وی پر براہ راست نشر ہوجاتا ہے۔اب دیکھیے کالم کی رو میں یہ خاکسار بھی بہہ گیا اور ہندوستان کی خرابیاں بیان کرنی شروع کردیں ۔بے شک ہندوستان کی برائیاں ان گنت ہیں ، غربت کے اعداد و شمار دل دہلادینے والے ہیں، عورتیں اور بچے جسم فروشی پر مجبور ہیں ،غریبوں کی نسلیں جھگیوں میں گزر جاتی ہیں،کروڑوں لوگ بھوکے سوتے ہیں ، مودی کی فسطائیت نےمسلمانوں کاجینا دوبھر کر رکھا ہےاورہندوستانی جمہوریت برہنہ ہوچکی ہے مگر؟کسی زمانے میں یہ باتیں ہمارے لئےتسلی کا باعث بن جایا کرتی تھیں مگر اب انہیں ۔اگر آپ ٹویٹر پر ہندوستانی سرکار کا کوئی اکاؤنٹ دیکھیں تو آپ کا اندازہ ہوگا کہ وہ کس سطح پر کام کر رہے ہیں... اُن کی تجارت ، شرح نمو، زر مبادلہ کے ذخائر، برآمدات، روپے کی طاقت، بیرونی سرمایہ کاری، شہروں کا انفراسٹرکچر....وہ ٹیک آف کر چکے ہیں۔ یہ لکھتے وقت مجھے سخت تکلیف ہورہی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ جن خدشات کا اظہار اسّی کی دہائی میں چند ’شکست خوردہ عناصر ‘ کرتے تھے وہ خدشات آج درست ثابت ہورہے ہیں ، آج ہماری معیشت منہ کے بل آن گری ہے ، اب اِس معیشت کے ڈسے ہوئے عام آدمی کوہندوستان کی جمہوریت میں کیڑے نکال کر یا آر ایس ایس کی غنڈہ گردی کے بارےمیں بتا کر نہیں بہلایا جا سکتا ۔وہ دن گئے جب ہم ممبئی کی کچی بستیوں کی مثال دے کر عوام کو ڈراتے تھے کہ شکر ہے ہمارے ہاں غربت اِس مکروہ شکل میں موجود نہیں ۔سچ تویہ ہے کہ کئی دہائیوں سے جو احمقانہ فیصلے ہم کرتے آرہے تھے، آج اُن فیصلوں کا نتیجہ سامنے آ رہا ہے ۔انگریزی میں کہتے ہیں کہ There is always light at the end of the tunnel ، ممکن ہے یہ بات درست ہو مگر سرنگ کے اختتام پر روشنی اسی صورت میں نظر آئے گی اگر ہم سرنگ میں رینگتے رہیں گے نہ کہ وہیں بیٹھے بیٹھے بچے پیدا کرتے رہیں گے۔اِ س قنوطیت کی معافی چاہتا ہوں ،پر کیا کروں طبیعت اُدھر نہیں آتی!

تازہ ترین