• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دھماکوں کی گونج، ہر طرف گولیوں کی تڑتڑاہٹ، سڑکوں پر دوڑتی ایمبولینسز کے سائرن، فضا میں ہیلی کاپٹرز کا شور، لڑاکا طیاروں کی پروازیں، یہ سوڈان کے دارالحکومت، خرطوم کے مناظر ہیں، جو کئی روز سے خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ کئی سیز فائر ہوئے اور ٹُوٹ گئے۔ تادمِ تحریر پانچ سو ہلاکتوں کی تصدیق ہوچُکی، تاہم آزاد ذرائع کے مطابق تعداد کہیں زیادہ ہے کہ بہت سی لاشیں اسپتالوں ہی میں نہیں پہنچ سکیں۔ خوف زدہ شہری پناہ کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ اس افریقی دارالحکومت میں ہر طرف آگ و خون کا رقص جاری ہے۔ 

حالیہ خانہ جنگی نے پہلے ہی سے غربت، بھوک اور بےروزگاری کے مارے عوام کی حالت مزید ابتر کردی، لیکن قابض حُکم رانوں کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ وہ اپنے اقتدار کی جنگ میں مگن ہیں۔ اُن کے سامنے صرف اقتدار ہے، چاہے وہ دنیا کے کسی غریب ترین مُلک ہی کا کیوں نہ ہو۔ یہ خانہ جنگی سوڈان کے دو ایسے جرنیلوں کے درمیان ہو رہی ہے، جو کل تک ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے اور یہ ہیں، فوج کے سربراہ، جنرل عبدل الفتّاح البرھان اور پیراملٹری فورس کے سربراہ، جنرل حمیدتی، جن کا اصل نام محمّد حمدان دقلو ہے۔ اِن دونوں نے دارفور میں باغیوں کو کچلنے کے لیے مل کر کام کیا اور حمیدتی چند روز پہلے تک آرمی چیف کے نائب بھی تھے۔

اِن دونوں نےمشترکہ کارروائی کرتے ہوئے سِول حکومت برطرف کر کے’’ سورن کاؤنسل‘‘ قائم کی، جس کے سربراہ جنرل برھان بنے۔ اِس کاؤنسل کا مقصد روزمرّہ امور چلانا اور انتخابات کے انتظامات کرنا بتایا گیا تھا۔ یہ ایک ہائبرڈ حکومت تھی، جو سِول اور ملٹری اشتراک سے چلتی رہی۔ وزیرِاعظم، عبداللہ حمدوق اس کے سِول سربراہ تھے۔ وزیرِاعظم، حمدوق فوج کی دخل انداذی پر کُھلے عام تنقید کیا کرتے تھے، جس پر فوج نے اُنھیں کچھ عرصہ قبل رسمی عُہدے سے فارغ کرکے عملاً فوجی حکومت قائم کردی۔ ایک ماہ قبل ایسے اشارے ملنا شروع ہوئے، جس سے سوڈان کے لوگوں اور دنیا کو اندازہ ہونے لگا کہ جنرل برھان کا اقتدار پر مکمل طور پر قابض ہونے کے لیے صبر کا پیمانہ لب ریز ہوتا جارہا ہے۔ 

وہ ایک طاقت وَر حکومت لانا چاہتے ہیں، جو اُن کے بقول، سوڈان کو مشکلات سے نکال سکتی ہے اور ظاہر ہے، وہ خُود کو ہی اِس کا اہل سمجھتے ہیں۔ اِسی معاملےپردونوں ساتھی جرنیلوں، برھان اور حمیدتی میں اختلافات پیداہوئے اور مسلّح لڑائی شروع ہوگئی، جس نے خرطوم سمیت کئی علاقوں کو میدانِ جنگ بنا دیا۔ ساری دنیا، خاص طور پر سوڈان کے افریقی اور عرب پڑوسیوں نے اِس خانہ جنگی پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ وزیرِاعظم حمدوق نےدوسال کی کوششوں سےمختلف عالمی اداروں سے جو امدادی معاہدے کیے تھے، وہ کھٹائی میں پڑ گئے۔ پاکستان سمیت تمام ممالک نے اپنے شہریوں اور سفارتی عملے کو خرطوم سے نکال لیا ہے۔ سعودی عرب اور امریکا نے انتہائی مشکل حالات میں ثالثی کرتے ہوئے سیز فائر کروایا، لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ اس پر کب تک عمل ہوگا۔

سوڈان شمالی مشرقی افریقا میں واقع ہے اور اِس کی سرحدیں جنوبی سوڈان (جو پہلے اِس کا حصّہ تھا)، چاڈ، اریٹیریا، ایتھوپیا اور بحرِ احمر سے ملتی ہیں۔ سوڈان کی آبادی تقریباً 4 کروڑ75 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ برطانوی نو آبادی رہا، گو کہنے کو یہ مِصر کےسلطان کی حُکم رانی میں تھا۔ جب جنرل نجیب مِصر میں سلطان کا تختہ اُلٹ کر فوجی انقلاب لائے، تو اُنہوں نے سوڈان کو آزادی دِلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ نجیب کا سوڈان سے خاندانی تعلق بھی تھا اور جوانی وہیں گزری تھی۔ 1952 ء میں آزادی کے بعد سے سوڈان میں کچھ عرصہ ہی سِول حکومت رہی، پھر جنرل نمیری نے تختہ اُلٹ کر فوجی حکومت قائم کرلی۔ 

فوجی حکومتوں کایہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ آخری صدر جنرل عمر البشیر نے1989 ء میں اقتدار پر قبضہ کیااور تیس سال حکومت کرنےکےبعد شدید احتجاجی مظاہروں کےنتیجے میں اقتدار سے الگ ہوئے۔ اُس وقت سے مُلک عدم استحکام سے دوچار ہے اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ عبوری طور پر ایک سِول وزیرِاعظم آئے، تاہم وہ جلد ہی رخصت ہوگئے۔ جس کےبعد جنرل برھان سورن کاؤنسل کے ذریعے حکومتی امور چلاتے رہے، جس میں جنرل حمیدتی اُن کےنائب کےطور پر کام کررہےتھےکہ جنرل برھان نے اچانک اپنی سربراہی میں فوجی حکومت کا اعلان کردیا۔ یوں دونوں میں برتری پر اختلاف ہوا اور خانہ جنگی شروع ہوگئی۔

اِس سے پہلے2011 ء کی خانہ جنگی میں سوڈان کے دو ٹکڑے ہوگئے تھے اور مُلک جنوبی سوڈان اور سوڈان میں تقسیم ہوگیا۔ سوڈان تیل پیدا کرنے والا ایک بڑا مُلک رہا ہے، تاہم، جنوبی سوڈان کی علیٰحدگی کے بعد اس کے تیل کی75 فی صد فیلڈز جنوبی سوڈان میں رہ گئیں، اِس لیے سوڈان کی معیشت اُس وقت سے شدید دباؤ میں ہے۔ یہ مُلک سونے اور دوسری معدنیات کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے، لیکن بنیادی طور پر ایک زرعی مُلک ہے۔ مظاہروں اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت بیٹھ چُکی ہے، بھوک و افلاس کے مناظر عام ہیں۔ آج اس کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے، اس کے باوجود کہ تیل بھی ہے اور سونا بھی۔ 

جی ڈی پی8.4 سے 2.5 تک گر چُکی ہے اور خانہ جنگی کے بعد کیا صُورتِ حال ہوگی، یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں۔ افراطِ زر129 فی صد ہے، جب کہ بےروزگاری کی شرح16 فی صد سے اوپر ہے۔ سوڈان کی ورکنگ فورس آبادی کے پچاس فی صد پرمشتمل ہے، لیکن اسے روزگار دے کر استعمال نہیں کیا جاسکا۔ عبوری وزیرِ اعظم حمدوق نے تباہ حال معیشت کی بحالی کے لیے امریکا، عالمی بینک اور افریقن یونین سے امدادی پیکجز منظور کروائے تھے، جو خانہ جنگی شروع ہوتے ہی منجمد ہوگئے۔ اِس معاشی صُورتِ حال کودیکھتےہوئےوہاں فوجی حکومتوں کے خلاف جاری عوامی احتجاج کسی کے لیے حیرت کا باعث نہیں۔ 

سوڈان اُن ممالک میں شامل ہے، جن کے متعلق آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں نے اپنی رپورٹس میں کہا تھا کہ وہ معاشی بدحالی کی وجہ سے سیاسی بحران اور عدم استحکام کا شکار ہوں گے۔ سوڈان کےحالات دیکھ کر ہمیں اپنی حالت پر بھی نظر ڈالنےکی ضرورت ہے کہ افراتفری کسی مُلک یا قوم کےلیےکیسےزہرِقاتل بنتی ہے۔بلوم برگ نے، جو مالیاتی امور کا ایک ممتاز جریدہ ہے، حالیہ رپورٹ میں بتایا کہ پاکستان میں سپریم کورٹ اور وفاقی حکومت کے درمیان بڑھتی ادارہ جاتی کش مکش کی وجہ سے آئی ایم ایف کی توجّہ پروگرام سے ہٹ گئی اور اس نے قرض کی اُس قسط کے جاری کرنے میں لیت و لعل سے کام لینا شروع کردیا، جس کے لیے قوم اِس سال فروری سے منتظر ہے۔ 

اس پروگرام کے جاری رہنے پر مُلک کی بین الاقوامی مالیاتی ساکھ کا دارومدار ہے۔ یاد رہے، اِس آئی ایم ایف پروگرام پر وزیرِ اعظم، عمران خان کے دَور میں کام شروع ہوا تھا۔ اِس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سال بَھر سے جاری مظاہروں نے، جو قبل از وقت انتخابات کےلیےکیےجا رہے ہیں، مُلک کو معاشی اور سیاسی عدم استحکام میں دھکیل دیا، جس پر عالمی مالیاتی اداروں ہی نے نہیں، بلکہ قریبی دوستوں نے بھی ہر قسم کے مالی تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا۔ گارنٹی پرگارنٹی مانگی جا رہی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ گارنٹی مُلکی استحکام کی ہے۔ سیلاب اور یوکرین جنگ سے ہونے والی عالمی منہگائی نے معیشت کی کمر مزید توڑ دی۔ 

یہی حال سوڈان کا بھی ہے کہ آئی ایم ایف نے اپنے تمام قرضے روک دیئے، جب کہ امریکا اور عالمی بینک نے اُس کی امدا بند کردی۔ وہ استحکام کی یقین دہانی چاہتے ہیں، جسے خانہ جنگی نے بَھک سے اُڑا دیا۔ ہم اپنے وزیرِخزانہ کےروزروز کے اعلانات سے نالاں ہیں کہ ’’آئی ایم ایف کی تمام شراط پوری کردی گئیں، اسٹاف لیول معاہدہ ہونے کو ہے‘‘، لیکن پھر بھی معاہدہ نہیں ہو پارہا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک ہفتے بعد ہو جائے گا، پندرہ روز لگیں گے، یہ تسلّیاں اب مذاق لگنے لگی ہیں، معاشی ماہرین حکومت کو لتاڑتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلم لیگ نون کو، جو اتحادی حکومت کی سب سے بڑی جماعت ہے، اس کی قیمت گرتی سیاسی مقبولیت کی صُورت چُکانی پڑی، لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ وزیرِ خزانہ کی طرف سے آنے والے بیانات دراصل اپنے عوام سے زیادہ اُن عالمی اداروں کے لیے ہیں، جن کا اعتماداِس قوم کی معاشی صلاحیت پر متزلزل ہوچُکا ہے۔

گزشتہ سالوں سے جاری بیڈگورنینس، سب سےبڑے صوبے میں حکومت کونہ چلنے دینا، سیاسی افراتفری، اسمبلیوں کا ٹوٹ جانا، مظاہرے، ہنگامے، لانگ مارچ اور مقدمے بازی کی وجہ سےاب دنیا میں ہمارا امیج ایک ایسی قوم کابناہے، جواپنے معاملات سیاسی سطح پر سُلجھانے کے قابل نہیں۔ اِس بے اعتباری کی قیمت پاکستانی عوام کو چُکانی پڑ رہی ہے۔ اس کی پہلی شکل منہگائی، غربت اور بے روز گاری ہوتی ہے، جو ہم جھیل ہی رہے ہیں۔ سوڈان جیسےحالات اور معیشت کی تباہی عوام کے لیے پیغام ہے کہ اگر وہ مُلک کو مزید انتشار میں دھکیلیں گے، تو پھر قوم کو ایسی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کا حل شاید کسی بھی رہنما یا جماعت کے پاس نہ ہو۔

سوڈان میں فوجی حُکم رانی کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ یہ مُلک زیادہ تر آمریت ہی کے شکنجے میں رہا ہے۔ حالیہ خانہ جنگی بھی اِسی فوجی اقتدار کی ہوس کا شاخسانہ ہے۔ فوجی سربراہ جنرل برھان اور اُن کے نائب جنرل حمیدتی کی اقتدار کی ہوس نے پورے مُلک کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے اور تباہ حال معیشت نے جلتی پر تیل کا کام کیا، جو ایک اور فوجی آمر ہی کی بدترین گورنینس کا نتیجہ ہے، جس نے تیس سال اپنا تسلّط جاری رکھا اور بڑی مشکل سے مُلک و قوم کی جان چھوڑی۔ سابق صدر، جنرل عمر البشیر کو دارفور میں مبیّنہ جنگی جرائم کی وجہ سے عالمی عدالت میں مقدمے کا سامنا ہے۔

انہی کے دَور میں مُلک دو لخت ہوا۔ خانہ جنگی میں ایک دل چسپ کہانی بھی شامل ہوچُکی ہے، جس کا تعلق سونے کی کان کنی سے ہے۔ ہم بتا چُکے ہیں کہ سوڈان، معدنیات کے ذخائر رکھتا ہے اور وہ سونے کا ایکسپورٹر ہے۔ متحدہ عرب امارات جیسے مُلک اُس کے خریدار ہیں۔2017 ء میں صدر عمر البشیر نے اپنے ماسکو کے دَورے میں روسی حکومت کے ساتھ کئی معاہدوں پر دست خط کیے تھے، جن میں ایک پورٹ سوڈان پر روسی فوجی اڈّے کے قیام سے متعلق تھا، جب کہ دوسرا ایک روسی کمپنی کے ساتھ مل کر سوڈان میں سونے کی کان کنی کی اجازت سے متعلق تھا۔ امریکی وزارتِ خزانہ کا کہنا تھا کہ اِس معاہدے کی آڑ میں روس کے ویگنر گروپ کو کارروائی کے مواقع فراہم کرنا ہے۔

ویگنر گروپ روس میں ایک نجی فوجی کمپنی ہے، جسے عرفِ عام میں کرائے کی قاتل فورس کہتے ہیں۔ یہ گروپ یوکرین میں روسی فوج کے ساتھ مل کر جنگ میں حصّہ لے رہا ہے۔ ویگنر گروپ نے سوڈان میں کسی قسم کی کارروائی کی تردید کی اور اس کی دخل اندازی کے ثبوت بھی نہیں ملے۔ اس گروپ کو امریکا اور یورپی یونین کی طرف سے پابندیوں کا سامنا ہے۔ اِن دنوں مختلف افسانے اور سازشوں کے قصّے عام ہیں، جن میں بتایا جاتا ہے کہ کیسے روس اور امریکا، سوڈان کے سونے کے ذخائر پر قابض ہونے کے لیے برسرِ پیکار ہیں۔

یہ اُسی قسم کے افسانے لگتے ہیں، جیسے پاکستان کے قدرتی وسائل اور افغانستان میں سونے کی کانوں سے متعلق وقتاً فوقتاً پھیلائے جاتے رہے اور ایسا عموماً فوجی حُکم رانوں کے دَور میں ہوا تاکہ عام آدمی اُن سے آنے والی امکانی خُوش حالی کے خوابوں میں مست رہے اور ہمیشہ یہی کہتا رہے کہ مُلک تو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، مگر کوئی اُنھیں نکالتا ہی نہیں، سازشیں ہو رہی ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اِن ہی عوام نے اُن ذخائر کو نکالنا اور استعمال کرناہے۔ آخر عرب ممالک بھی تو بیرونی کمپنیز سے تیل نکلوا کر مالا مال ہوگئے۔ 

بہرحال، اس بیانیے یا خوش فہمی سے محنت کرکے ترقّی کرنے کی حوصلہ شکنی ہوئی اور نتیجتاً قومی ترقّی رُک گئی، اِس طرح کے عناصر دونوں ممالک، پاکستان اور سوڈان میں کام یاب نظر آتے ہیں، کیوں کہ دونوں ممالک کے عوام غریب سے غریب تر اور معیشت تباہی تک جا پہنچی ہے۔ یہ خوابوں کے سوداگر کب تک مسلم ممالک کے عوام اور خُود ساختہ دانش وَروں کو اپنے پروپیگنڈے سے بےوقوف بناتے رہیں گے، اِس سوال کا جواب تو عوام ہی دے سکتے ہیں کہ جو اِن کی باتوں کے سحر میں گرفتار ہوکر خوش حالی کے خوابوں میں کھو جاتے ہیں اور اپنی نااہلیوں، ناکامیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔