• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسپکٹر جنرل پولیس، بلوچستان، عبد الخالق شیخ سے بات چیت
انسپکٹر جنرل پولیس، بلوچستان، عبد الخالق شیخ سے بات چیت

بات چیت: نسیم حمید یوسف زئی

رپورٹ: فرخ شہزاد،کوئٹہ

عکّاسی: رابرٹ جیمس

کسی بھی ریاست میں انصاف کی فراہمی اور قانون کی عمل داری میں محکمہ پولیس کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل تصوّر کیا جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ زرّیں میں باقاعدہ منظّم شعبہ جات تشکیل دینے کے علاوہ ریاست میں بہت سی اصلاحات بھی نافذ کیں۔ ان اقدامات سے لوگوں کو تحفّظ اور امن و امان کے ساتھ مستقل روزگار بھی فراہم ہوا۔ ہمارے ملک میں فوج کے بعد محکمۂ پولیس سب سے اہم اور بڑے ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ قیامِ امن اور انصاف کی فراہمی میں اس فورس کے کلیدی کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ 

گرچہ عمومی طور پراس محکمے سے متعلق معاشرے میں منفی تاثر گہرا ہے، تاہم یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔ غیر جانب دارانہ طریقے سے اس کا دوسرا رُخ دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ اس محکمے سے وابستہ افسران و اہل کار اپنی صلاحیت، تربیت اور قابلیت کے باعث معاشرے میں پھیلی برائیوں کی بیخ کنی کے لیے اپنی جان ہتھیلیوں پر رکھ کر ہمہ وقت برسرِپیکار ہیں۔ عوام کی پُکار پر سب سے پہلے پولیس ہی پہنچتی ہے اور مشکل ترین حالات میں بھی اپنے متعین کردار سے زیادہ ذمّے داریاں ادا کرتی ہے، حالاں کہ اس قومی ادارے کو وقت کے تقاضوں کے مطابق مناسب وسائل حاصل ہیں، نہ قوانین ہی موثر ہیں۔ بلوچستان پولیس کی بات کی جائے، تو ایک عرصے تک یہاں پولیس کا کردار محض لیویز فورس کے معاون کا تھا۔ 

صرف 10فی صد رقبے پر پولیس، جب کہ90فی صد پر لیویز کی عمل داری تھی۔ پولیس کے دائرئہ اختیار میں آنے والا ’’اے ایریا‘‘ اور لیویز کا علاقہ ’’بی ایریا‘‘ کہلاتا۔ پھر سابق صدر، جنرل پرویز مشرف کے دَورِ حکومت میں صوبے کو اے ایریا قرار دے کر لیویز کو پولیس فورس میں ضم کردیا گیا، لیکن 2008ء میں دوبارہ لیویز فورس بحال کردی گئی، تو وہاں کے اکثر افسران محکمہ پولیس ہی میں رہ گئے۔ تاہم، جدید دَور کے تقاضوں کے مطابق اب ون کمانڈ ون فورس کے تحت رفتہ رفتہ متعدد اضلاع پولیس کے حوالے کیے جارہے ہیں اور امید ہے کہ جلد ہی صوبہ بلوچستان مکمل طور پر پولیس کے حوالے کردیا جائے گا۔ 

واضح رہے کہ نائن الیون کے بعد بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پولیس نے فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا، جس کے باعث حکومت نے اس محکمے پر نہ صرف خصوصی توجّہ دی، بلکہ اس کی نفری، استعداد اور یونٹس میں بھی اضافہ کیا۔ موجودہ حالات کے تناظرمیں بلوچستان پولیس کاکردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے، تو اس حوالے سے گزشتہ دنوں انسپکٹر جنرل پولیس، بلوچستان، عبدالخالق شیخ سے ایک تفصیلی نشست ہوئی، جس کا احوال نذرِقارئین ہے۔

عکّاسی: رابرٹ جیمس
عکّاسی: رابرٹ جیمس 

س: سب سے پہلے تو یہ بتائیے کہ صوبے کی پولیس کے سربراہ کے طور پر آپ کو کن چیلنجز کا سامنا ہے؟

ج: صوبے میں امن و امان کے حوالے سے ہمیں متعدد چیلنجز درپیش ہیں۔ جن میں ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، اغوا برائے تاوان وغیرہ سرِفہرست ہیں۔ جب کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں پر دہشت گردانہ حملے بھی لمحۂ فکریہ تھے، مگر الحمدللہ، اب ان پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔ چوں کہ بلوچستان کی زمینی سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں، تو ہمیں کئی بیرونی خطرات کا بھی سامنا ہے، جو کہ دیگر سیکیوریٹی ایجنسیز کے ساتھ ساتھ بلوچستان پولیس کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ 

تاہم، یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ ہماری فورسز ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ موجودہ حالات میں پولیس، جواں مَردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لانے کےلیے فعال کردار ادا کررہی ہے اور اس ضمن میں بلوچستان پولیس کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں اور یہ خاطر خواہ نتائج پولیس کی جدید خطوط پر تربیت اور بہتر حکمتِ عملی ہی کی وجہ سے برآمد ہورہے ہیں۔

س: ’’ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘ مگر عوام اس فورس سے خوف زدہ کیوں رہتے ہیں؟

ج: بنیادی ضروریات کا حصول، جس میں امن و سکون سرِ فہرست ہے، عوام کا حق ہے، اور اس کی فراہمی حکم رانوں کا فرض، یہی رفاہِ عامہ کا بنیادی فلسفہ ہے۔ ہماری بھرپور کوشش ہے کہ عوام کو امن و سکون اور احساسِ تحفّظ فراہم کریں، جو آج کے دَور میں ناپید ہوتا جارہا ہے۔اس ضمن میں ہم نے پولیس کو عوام دوست بنانے کے لیے کمیونٹی پولیسنگ کے تحت صوبے کے قبائلی رسم و رواج کو مدنظر رکھتے ہوئے افسران اور جوانوں کی خصوصی تربیت کے علاوہ محکمے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کرائم سین مینجمنٹ سمیت فارنزک سسٹم بھی مزید اَپ گریڈ کردیا ہے۔ 

اب پولیس فورس کی جانب سے دہشت گردی، منشیات، لینڈمافیا اور اسلحے کی نمائش جیسے جرائم کے خاتمے کے لیے کسی کارروائی سے دریغ نہیں کیا جائے گااور اگر کوئی پولیس اہل کار ان جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی کرتا ہوا پایا گیا، تو اس کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی۔ علاوہ ازیں، کوئٹہ میں جرائم کی روک تھام کے لیے کئی مزید تھانے قائم کیے گئے ہیں، جن کے قیام سے شہر میں جرائم کی روک تھام میں مدد ملے گی اور ہم نے ان نئے تھانوں کو شہدا کے ناموں سے منسوب کرکے ان کے بچّوں سے ان کا افتتاح کروایا ہے۔

س: پولیس نفری میں ریکارڈ اضافے اور متعدد نئے یونٹس بنانے کے باوجود کوئٹہ کے اکثر علاقوں میں ایف سی سمیت دیگر فورسز کی خدمات کیوں حاصل کی جارہی ہیں؟

ج: ماضی میں نفری کی کمی کے باعث کوئٹہ سمیت کئی اضلاع میں پیرا ملٹری فورسز، پولیس کے ساتھ مل کر کام کرتی رہی ہیں۔ اُن کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے ہی میں صوبے میں امن کی بحالی ممکن ہوئی۔ اب چوں کہ رفتہ رفتہ حالات معمول پر آرہے ہیں، تو ہم نے مختلف چیک پوسٹس کا چارج لینا شروع کردیا ہے اور جلد ہی کوئٹہ سمیت تمام اضلاع میں قائم دیگر فورسز سے چیک پوسٹس کا چارج لے کر بلوچستان پولیس اپنا کنٹرول سنبھال لے گی۔

س: آپ کی جانب سے پولیس افسران اور اہل کاروں کے بچّوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجّہ دی جا رہی ہے۔ پورے ملک میں اپنی نوعیت کا یہ واحد منصوبہ ہے، تو اس کے خدوخال سے متعلق کچھ بتائیں۔

ج: مَیں نے محکمے کے وسائل میں رہتے ہوئے ایجوکیشن گرانٹ اسکیم متاثر کروائی ہے، جس کے تحت کانسٹیبل سے لے کر ڈی ایس پی تک کے افسران کے بچّے صوبے کے کیڈٹ کالجز میں تعلیم حاصل کرسکیں گے۔ یہ اسکیم خالصتاً ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے تحت شروع کی گئی ہے۔ کیڈٹ کالج کے انٹری ٹیسٹ پاس کرنے والے بچّوں کی مکمل فیس محکمہ ادا کرے گا۔ ہم نے پولیس پلازا میں واقع دکانوں کے کرایوں میں موجودہ مارکیٹ ویلیو کے تناسب سے اضافہ کرکے اس رقم کو فکسڈ ڈیپازٹ کردیا ہے، تاکہ بعد میں آنے والے پولیس کے سربراہ بھی اس منصوبے کو جاری رکھ سکیں۔ 

علاوہ ازیں، پولیس گرامر اسکول میں پولیس افسران اور اہل کاروں کے بچّوں کو جدید دَور کےتقاضوں کے مطابق انٹری ٹیسٹ کی تیاری کروائی جارہی ہے۔ دراصل، مَیں تعلیم پر اس لیے زیادہ فوکس کررہا ہوں کہ میرا تعلق بھی ایک عام گھرانے سے ہے، لیکن کیڈٹ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد میری زندگی بدل گئی۔ وہاں سے حصولِ علم کی وجہ ہی سے مَیں آج اس عہدے پر فائز ہوں اور آپ کو یہ جان کا شاید حیرت ہوگی کہ میرے باورچی کی بیٹی میڈیکل کی طالبہ ہے۔

س: حال ہی میں صوبائی حکومت کی جانب سے نئے شہدا پیکیج کا اعلان کیاگیا، جب کہ تن خواہوں میں اضافے کی بھی نوید سنائی جارہی ہے، تو اس حوالے سے کچھ بتائیے؟

ج: ہم حکومت بلوچستان کے شُکر گزار ہیں، جنہوں نے ہماری درخواست پر پولیس شہداء کے لواحقین کے لیے معاوضوں میں اضافے کی منظوری دی، جس کے تحت کانسٹیبل، ہیڈ کانسٹیبل، اسسٹنٹ سب انسپکٹر، سب انسپکٹر اور انسپکٹر کی فیملی کو ملنے والی نقد امدادی رقم 30لاکھ سے بڑھاکر ایک کروڑ، گریڈ 17کے اے ایس پی اور ڈی ایس پی کے ورثاء کو ڈیڑھ کروڑ، ایس پی، ایس ایس پی، ڈی آئی جی، ایڈیشنل آئی جی اور آئی جی کی فیملیز کو دودو کروڑ روپے ملیں گے۔ اسی طرح شہداء کی فیملی کو پلاٹ یا زمین کے حوالے سے ملنے والی نقد رقم میں بھی اضافہ کرکے اب یہ گریڈ ایک سے آٹھ تک گیارہ لاکھ، گریڈ 9سے 16تک 22لاکھ، 17سے19 گریڈ کے لیے 55لاکھ اور 20سے22 گریڈ تک کے افسران کے لیے پانچ کروڑ روپے کردی گئی ہے۔

مزید برآں، جلد ہی بلوچستان پولیس کی تن خواہیں بھی دیگر صوبوں کے برابر کردی جائیں گی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں، اگرچہ انسانی جان کا کوئی متبادل نہیں، لیکن معاوضوں میں اضافے سے شہداء کے لواحقین اور خاندانوں کی زندگیوں میں کچھ آسانیاں ضرور پیدا ہوں گی۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں دیگر صوبوں کی نسبت معاوضے بہت کم تھے اور ان میں طویل عرصے سے اضافے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی، تو وزیراعلیٰ عبدالقدوس نے معاوضوں میں اضافے کی منظوری دے کر شہداء کے لواحقین اور خاندانوں کے لیے بہت بڑا کام کیا ہے۔

س: آپ کے دَور میں پولیس افسران اور اہل کاروں کو ریکارڈ ترقیاں دی گئیں، اس کے باوجود کوئٹہ کے کئی ڈویژنز اور مختلف اضلاع میں انسپکٹرز اور ڈی ایس پیز کو قائم مقام کا چارج دیا گیا، اس کی کیا وجوہ ہیں؟

ج: میری بھرپور کوشش رہی ہے کہ کانسٹیبل سے ڈی ایس پی تک کے افسران کی فوری ترقی ممکن ہوسکے، اس میں ہم بڑی حد تک کام یاب بھی رہے اور بڑی تعداد میں اہل کاروں کو نہ صرف اگلے عہدوں پر ترقی کے مواقع میسّر آئے، بلکہ خالی پوسٹوں پر میرٹ پر بھرتیاں بھی کی گئیں۔ اب بھی میں نے خالی پوسٹوں کی تفصیل طلب کی ہے اور جلد ہی پروموشن اور ڈائریکٹ کوٹے کی آسامیاں مشتہر کرکے بھرتیاں شروع کردیں گے۔ جہاں تک قائم مقام چارج دینے کی بات ہے، تو فی الحال ہمیں پی ایس پی کیڈر کے افسران کی کمی کا سامنا ہے، کیوں کہ اکثر افسران یہاں آنا نہیں چاہتے، جس کے باعث بہ امرِ مجبوری ڈی ایس پیز، ایس پیز کے عہدے پر تعینات کیے گئے ہیں۔

س: محکمہ پولیس، لیگل وِنگ کے افسران کی ترقیوں کے حوالے سے کوئی واضح سروس اسٹرکچر نہیں، اس حوالے سے آپ کیا اقدامات کررہے ہیں؟

ج: لیگل ونگ محکمے میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے، لیکن بدقسمتی سے دیگر صوبوں کی طرح ہمارے یہاں سروس اسٹرکچر نہ ہونے کے باعث ترقیوں کے مواقع محدود ہیں، حالاں کہ پولیس کے اس شعبے کو عدالتوں میں پولیس کے خلاف کسی پٹیشن کے بعد جواب دائر کرنا ہوتا ہے اور اپنے محکمے کے ملازمین اور افسران کے ٹریبونل میں کیسز کے بعد محکمے کا موقف بیان کرنے کے علاوہ چالان میں قانونی نکات کی جانچ پڑتال کرنی ہوتی ہے۔ 

نیز، مال خانے کی نگرانی کرنی ہوتی ہے، افسران کے حکم پر مختلف کیسز کی انکوائری کرنی ہوتی ہے اور محکمے کو کسی نئے اقدام پر قانونی معاونت بھی فراہم کرنی ہوتی ہے، لہٰذا ہماری پوری کوشش ہے کہ لیگل ونگ کا پورا سروس اسٹرکچر بنایا جائے تاکہ اس شعبے کے لوگ بھی اپنے کیڈر میں ترقی کرسکیں۔

س: صوبے میں ڈی ایس پیز کی براہِ راست بھرتی کا فیصلہ کیا گیا، لیکن اس پر اب تک عمل درآمد کیوں نہیں ہوسکا؟

ج: بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پولیس میں ڈی ایس پی کی 43 خالی اسامیوں پر بھرتیوں کے لیے اخبارات میں باقاعدہ اشتہارات شایع کیے گئے، اور پھر پروموشن کوٹے سے متعلق بعض اہل کاروں کے دائر کردہ کیسز کا فیصلہ بھی آچکا ہے، تو اب جلد ہی خالی پوسٹس پر بھرتی کا عمل شروع کردیا جائےگا۔

س: لیکن ڈی ایس پیزکی بھرتی کے لیے عُمر اور تعلیم کی شرائط پر صوبے کے نوجوانوں کے کچھ تحفّظات ہیں، انھیں دُور کرنے کے لیےآپ کیا اقدامات کررہے ہیں ؟

ج: بلوچستان پولیس میں بھرتی کے لیے عُمرکی شرط28سال ہے تاکہ نیا خون فورس میں شامل ہوکر قیامِ امن میں اہم کردار ادا کرسکے۔ اگر عُمر کی حد میں رعایت دی گئی، تو امکان ہے کہ زیادہ عمر کے افراد فورس کا حصّہ بن کر پُرجوش، کم عُمر نوجوانوں کی طرح کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپائیں گے، لہٰذا ہمارے سامنے سی ایس ایس طرز پر عُمر کی شرط سے متعلق کوئی تجویز زیرِ غور نہیں ہے۔

س: حال ہی میں بلوچستان پولیس میں خواتین اور اقلیتی کوٹے کی اسامیوں پر بھرتیاں کی گئیں، آپ کے خیال میں قبائلی معاشرے میں خواتین کی پولیس فورس میں شمولیت سے امن و امان پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے؟

ج: صوبے بھرمیں خواتین پولیس اہل کاروں کی کمی پوری کرنے اور اقلیتوں کے کوٹے پر مِن وعن عمل کرنے کے لیے بلوچستان پولیس نے حال ہی میں 290خواتین اور 71اقلیتی برادری کے افراد کو بھرتی کیا ہے۔ مذکورہ بھرتی نہ صرف پولیس کی استعدادِ کار بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوگی، بلکہ اس سے آپریشنل ڈیوٹیز میں بھی بہتری آئے گی۔ بلوچستان پولیس جلد ہی صوبائی حکومت کے تعاون سے کوئٹہ ویمن پولیس اسٹیشن کی طرز پر تربت، نصیر آباد اور صوبے کے دیگر اضلاع میں ویمن پولیس اسٹیشنز قائم کرے گی۔

یہ حقیقت ہے کہ قبائلی معاشرے میں خواتین پر مردوں کی نسبت زیادہ ذمّے داری عائد ہوتی ہیں، انہیں پولیس فورس میں اپنی جگہ بنانے کے لیے زیادہ محنت کرنا ہوگی۔ لہٰذا خواتین پولیس خود کو مخصوص طرز کی پولیسنگ کے لیے محدود نہ کریں، بلکہ ایک فعال پولیس جوان کی طرح اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا منوائیں۔