• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابات ستمبر سے قبل کرانے کی ضد اور پس پردہ مقاصد

عوام میں یہ تاثر ہے کہ جیسے آرمی چیف کی تقرری کے مراحل تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے لئے دشوار اور اعصاب شکن تھے اور انہوں نے بعض مقاصد حاصل کرنے کے لئے نئے آرمی چیف کی اپنی منشا کے مطابق تقرری کے لئے تمام تر جائز و ناجائز اور اخلاقی وغیراخلاقی راستے اختیار کئے لیکن انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، بالکل اسی شدومد کے ساتھ انہوں نے یہی مقاصد فوج کے نئے سربراہ کی بجائے عدلیہ کے ذریعے حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے ایک ایسی سازش تیار کی جس کے ذریعے ملک میں صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت میں کرانے کے آئینی قاعدے کے برعکس پنجاب اسمبلی ایسے وقت میں تحلیل کردی جس کے انتخاب کے لئے 90روز کی آئینی مدت جنرل الیکشنز کے انعقاد سے کم و پیش 6 ماہ پہلے پوری ہوتی تھی۔صرف یہی نہیں، پنجاب کے بعد خیبرپختونخوآ اسمبلی بھی تحلیل کر دی اور تحریک انصاف کی اس حرکت سے معاشی بحران کی شکار حکومت کو مزید کئی بحرانوں کا شکار کیا جا سکتا تھا،اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ وراثت میں ملنے والی لولی لنگڑی حکومت پر اس قدر بوجھ ڈالا جاسکے کہ یہ اپنے ہی بوجھ تلے اس طرح تک دب جائے کہ عالمی سطح پر ڈیفالٹ ہو جائے تاکہ ان معاشی اور سیاسی بحرانوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے الیکشنز یا بحرانوں کے ذریعے اقتدار پر قابض ہو جائے۔

سیاسی ناقدین کا ماننا ہے کہ عمران خان اب فوج کی بجائے عدلیہ کو مہرہ بنا کر اپنے وہ مقاصد حاصل کرنا چاہتے جس کا کوئی محب وطن پاکستانی تصور بھی نہیں کر سکتا۔یہ ناقدین کا موقف ہے کہ عمران خان کا یہ مشن اس قدر خفیہ ہے کہ وہ اسے اپنے قریبی ساتھیوں پر بھی عیاں نہیں کرتے جس کے تحت پاکستانی فوج کو دنیا میں رسوا اور بدنام کرنے کی مہم چلانے کے علاوہ فوج کو طبقات میں تقسیم کرنے کی بدترین کوشش کی اور انگلینڈ میں بھارتی ایجنسیوں اور یہودی لابی کے ساتھ مل کر پاکستان کی فوجی قیادت کے خلاف نفرتیں پھیلائیں لیکن پاکستان کی عدالتوں نے عمران خان کی حوصلہ افزائی کی اور ہر نازک مرحلہ پر ان کا ساتھ دیا۔

عمران خان کے مخالف حلقے جو ابتداء میں ان کے قریب رہے اور ان کی انہی مشکوک حرکتوں اور پوشیدہ عزائم کی وجہ سے ان سے علیحدگی اختیار کی، اپنے اپنے انداز میں بیان کرتے ہیں کہ عمران خان کے "خفیہ مقاصد" کی تکمیل آئین پاکستان کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل کر کے اپنے ذاتی ایجنڈے کو آئینی شکل دینے کے لئےکسی بھی طور عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنا ضروری ہے جس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اپنے پہلے مقصد کے حصول کے لئے بھی ایوان عدل کو ذریعہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ پنجاب اور خیبرپختونخواء یا قومی اور دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہر حال میں ستمبر 2023میں چیف جسٹس آف پاکستان کی ریٹائرمنٹ سے پہلے کرانے پر بضد ہیں کیونکہ عمران خان کا ماننا ہے کہ اس کے بعد انہیں "انصاف" ملنا ممکن نہیں ہوگا۔

دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد آئین کی شکل بگاڑ کر اسے جن ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گا ان میں "آزاد معاشرے کا قیام" جن میں مذہب کی آزادی، سوچ کی آزادی اور خاص طبقہ کو تبلیغ اور اظہار کی آزادی رائے کو نئے معنی پہنا کر متعارف کرایا جائے گا، اس کے ساتھ ہی آئین کے آرٹیکل (3)260میں تبدیلی کی راہ ہموار کی جائے گی۔حکمرانی کی تمام طاقت فرد واحد کو تفویض کرنے کے لئے پارلیمانی نظام حکومت کو صدارتی طرز حکمرانی یعنی مطلق العنانیت رائج کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ 18ویں ترمیم کا فوری خاتمہ کرکے صوبائی اختیارات سلب کرتے ہوئے ان پر وفاق کے قبضہ قائم کرنے کے لئے ترمیم کی جائے گی اوراسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لئے ایسے بین الاقوامی گروپوں یا لوبئسٹس کے ذریعے راہ ہموار کی جائے گی جنہیں دنیا میں پذیرائی حاصل ہے۔

سوال اٹھتا ہے کہ کیا عمران خان ان حالات میں اپنے سیاسی اور بین الاقوامی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ کیا ستمبر 2023 کے بعد انتخابات کا انعقاد عمران خان کےلئے مخصوص مقاصد حاصل کرنے میں ناکامی کا باعث ہو گا؟ شائد یہ تمام مسائل ضرورت کے مطابق یو ٹرن کے ذریعے حل کر لئے جاسکیں گے۔کیونکہ سائفر کے ڈھونگ سے امریکہ کو اپنا بدترین دشمن قرار دے کر اپنے چاہنے والوں کو AbsolutelyNot کا نعرہ دینے والا آج امریکہ کی جھولی میں بیٹھنے کی کوششوں میں ہے اور یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ کل تک اپنے دور حکومت میں امریکہ کے حکم پر سی پیک کا منصوبہ بند کرانے اور ملک کو تباہی کے دہانے پر لانے والا اب اقتدار کے لئے کس حد تک جا سکتا ہے؟

تازہ ترین