پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کے حوالے سے بھارت کی کشمیر سے متعلق آئینی شق میں ترمیم اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے نے پاکستان میں موجود وہ افراد جو ماضی میں بھارت سے مذاکرات کے حامی تھے ان کے لیے بھی ایسا کرنا مشکل بنا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر کی سابق حیثیت کی بحالی اس جانب ایک قدم ہوسکتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اس وقت ایکشن واحد چیز ہے جو پاک بھارت مذاکرات شروع کرسکتا ہے۔
بھارتی اخبار دی ہندو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں بلاول بھٹو نے کہا کہ انہوں نے ایس سی او کانفرنس کے اپنے میزبان بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے دو طرفہ مذاکرات کی درخواست نہیں کی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اس سال جولائی میں شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہی اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف کے دورۂ بھارت اور وہاں مدعو روس اور چین کے سربراہوں کے ساتھ اجلاس میں شرکت کےلیے دہلی آنے کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایس سی او کے اقدامات کے حوالے سے پرعزم ہے۔ پاکستان کی حقیقی خواہش ہے کہ وہ تمام مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرے۔ لیکن 5 اگست 2019 کو کیے گئے بھارتی اقدام کی وجہ سے اس پراسس کا راستہ بند ہوگیا ہے۔
بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بھارتی حکومت بات چیت کے لیے سازگار ماحول تخلیق کرے اور جلد از جلد ہم 4 اگست 2019 کی پوزیشن پر واپس جاسکیں، مجھے یقین ہے کہ ہم بامقصد مذاکرات کرسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ بلاول بھٹو 2011 کے بعد پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ ہیں جو بھارت کے دورے پر آئے ہیں۔
البتہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے 2014 میں بھارتی وزیراعظم مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی تھی، اس سوال پر کہ آرٹیکل 370 میں ترمیم پر پاکستان کو کیوں اعتراض ہے؟ حالانکہ یہ تو بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ اعتراض بھارت کی جانب سے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے نہ صرف بین الاقوامی پوزیشن بلکہ دو طرفہ پوزیشن کو یک طرفہ طور پر سبوتاژ کیا۔
پونچھ میں بھارتی فوجی گاڑی پر حملے اور ہلاکتوں کے حوالے سے سوال پر بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ بھارت سے امریکا تک تمام دہشتگرد اقدام کی مذمت کرتے ہیں اور پونچھ کے حوالے سے تو کسی بھارتی آفیشل نے پاکستان پر الزام عائد نہیں کیا۔