’’ستارو، موند لو آنکھیں ، تمہاری روشنی دل میں چھپی میری سیاہ خواہش کو نہ دیکھے ۔‘‘ ( شیکسپیئر: میکبتھ)
دنیا سیاہ اور مبہم خواہشات کے اسیر لوگوں سے لبریز رہی ہے ۔ اختیار حاصل کرنے کی لامتناہی ہوس کے باوجود دنیا اپنی جگہ پر موجود ، ملجگی خواہشات کی مہیب تاریکی کا پھیلائو ایک حقیقت،لیکن یہ بھی درست ہے کہ امید اور روشنی کی کرنیں ساعت درساعت اپنا راستہ بناتی دکھائی دیتی ہیں ۔ دنیا کے دہرے رنگوں میں ہم جینا سیکھتے ہیں ۔ فریڈرک نطشے یہ متناقضہ اس پیرائے میں بیان کرتے ہیں’’میں ایک جنگل، اور سیاہ درختوں کی رات ہوں ۔ لیکن جوشخص میری تاریکی سے خوف زدہ نہیں ، وہ میرے دیوہیکل درختوں کے نیچے گلابوں کی کیاریاں پائے گا۔ ‘‘
ہمارے ہاں فیض نے انسانی دکھ کا جس طرح احساس دلایا ، کوئی اور ایسانہ کرسکا۔ وہ تختہ دار سے رس بھرے ہونٹوں کا ذکر کرتا ہے ۔ تاریک گلیوں میں کھوجانے پر بھی محبوبہ کا ہاتھ تھامنے کی انمٹ خواہش دم نہیں توڑتی ۔ ان کے اشعار میں ڈھلے متضاد تصورات دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ہم آہنگ لے کی طرح سوز و گداز ، امید اوراعتماد کی جوت جگاتے ہوئے قاری کو احساس دلاتے ہیں کہ حالات کا دھارا ہمیشہ اسی نہج پر نہیں بہے گا۔ تبدیلی ضرور آئے گی۔
لیکن رات کی تاریکی بھی ایک حقیقت ہے ۔ اس کا اثر گہرا بھی ہوسکتا ہے اور قابوسے باہر بھی ۔ بہت سی معصوم جانیں اس اذیت کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں جو انسانی زندگی میں سرایت کرتے ہوئے تباہی اور بربادی کے فتنے جگاتی ہے ۔ لیکن تاریکی اورروشنی کی طاقتوں کے درمیان جنگ بھی ایک حقیقت ہے۔ اگر اس جنگ کی سمت درست اور توانائی بحال رکھی جائے تو نئے افق روشن ہوسکتے ہیں ۔ انسانی تاریخ کے اوراق ایسی ان گنت مثالوں سے بھرے ہوئے ہیں جب روشنی کی طاقتوں کو تاریکی کی طاقتوں پر فتح حاصل ہوئی۔ جادہ ٔ زیست اس طرح روشن ہوگیا کہ اس سے دنیا بھر کے دکھی انسانوں کے درد کو دوا مل گئی۔
فیض نے اس کیفیت کو نظم ، ’’ملاقات‘‘ میں اس طرح بیان کیا ہے :
سحر کا روشن افق یہاں ہے /یہیں پہ غم کے شرار کھل کر/شفق کا گلزار بن گئے ہیں /یہیں پہ قاتل دکھوں کے تیشے /قطار اندر قطار کرنوں/کے آتشیں ہار بن گئے ہیں۔
ہمارے ہاں بھی اندھیرے اور روشنی کی قوتوں کے درمیان، اور ماضی اور مستقبل کی قوتوں کے درمیان ایک زبردست معرکہ بپا ہے۔ ایک طرح سے یہ معرکہ ابدی ہے، اور یہاں تغیر کو ہی ثبات حاصل ہے۔تاریکی کی طاقتوں پر جمود طاری ہے۔ اُنھیں طاقت اور دولت کے نشے نے مدہوش کررکھا ہے ۔ اس کے چھینٹے ان کے کردار پر صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کی سحر بھی شب گزیدہ ہے۔ دوسری طرف روشنی کی قوتوں سے امید اور حوصلے کی تابانی پھوٹ رہی ہے ۔ ارغوانی افق سے امکانات کا سورج طلوع ہورہا ہے ۔ توقعات کا نخل ماضی کی نسبت کہیں زیادہ ثمر بار ہے لیکن شکست خوردہ طاقتوں نے راہ میں کانٹے ضرور بو دیے ہیں۔ آگے بڑھنے کا راستہ صاف کرنے کے عمل میں وہ اہرمنی طاقتیں دکھائی دے رہی ہیں جنھوں نے امیدوں کی اس سرزمین کو گہنا کر رکھ دیا ہے ۔
انسانی روح کی بلندی اگرچہ ایک آفاقی ارتفاع ہے، لیکن یہ بھی افسوسناک حقیقت ہے کہ اس کا انحطاط مکروہ اور گھنائونا ہو سکتا ہے ۔ اور آج کے دور میں ایسا ہوناایک معمول ہے ۔ عقل حیران ہے کہ ذاتی مفاد اور من پسند ترجیحات کیلئے ریاست اور عوام کی تقدیرکو اس حد تک بھی دائو پر لگایا جاسکتا ہے ۔ یہ ہمیشہ سے ملک کی کہانی رہی ہے۔ ریاستی اداروں کے درمیان تصادم کی آگ بھڑکانے کی موجودہ کوشش ہمیں اس خوفناک جہت کی یاد دلاتی ہے کہ دولت مند اور طاقتور دھڑوں کے مبہم مفادات کیلئےکوئی بھی حد پار کی جاسکتی ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے یہ بھی سوچنے کی زحمت نہیں کی جارہی کہ اس کے ریاست پر کیا تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے اور کیا یہ اپنا بچائو کرپائے گی؟
جس طرح ادھوری اسمبلی کاایوان عدلیہ اور ججوں کودشنام طرازی کیلئےاستعمال کیا جا رہا ہے وہ انتہائی مایوس کن ہے۔ اگرچہ عدلیہ کو اپنے طور پر اپنے ماضی کے مصائب پر غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہ کوشش بھی ایوان کی قانون سازی کے عمل کو بری طرح خراب کر رہی ہے جہاں عوام اور اس ملک کیلئے قانون سازی ہونی ہے۔ ان گنت نتائج ریاست کی عمارت ڈھا سکتے ہیں۔ ہمیں بھولنا نہیں چاہئے کہ یہ سب کچھ غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریقے سے استعمال کر کے چند لوگوں کی طاقت اور اختیار کو محفوظ بنانے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ ان کے پاس اقتدار کی باگ ڈور ہے، اس کیلئے اس کی تلاش اور نتائج کو خوش کرنے کیلئے ان کا تسلیم شدہ حق ہے۔ المیہ یہ ہے کہ وہ چند لوگوں کےمفادات کیلئے ملک کے قوانین کو مسخ کردیتے ہیں اور پھر بھی بچ نکلتے ہیں۔
ملک رسوائی کی دلدل میں دھنس رہا ہے۔ وہ مکالمہ جس کی ہدایت عدالت عظمیٰ نے دی تھی،گرچہ یہ اس کی ذمہ داری نہیں تھی، اس کا سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ تازہ ترین صورت حال کے مطابق ملک بھر میں تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرانے پرمفاہمت ہوئی ۔ تاہم باقی اسمبلیاں کب تحلیل ہوں گی اور ان میں انتخابات کب ہوں گے ،اس پر ابھی تک کچھ بھی واضح نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم ابھی پہلا قدم بھی نہیں اٹھاپائے۔ بحران کے پرامن حل کیلئے پیدا ہونے والی امیددم توڑ چکی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے 14 مئی کی تاریخ اپنی جگہ پر موجود ہے، لیکن یہ انتخابات کون کرائے گا؟
اندھیروں کا موسم ہم پر طاری ہے۔ لیکن کیا امید کی چنگاری کبھی بھڑک سکے گی؟ ایک بار پھر میکبتھ کا حوالہ دینا چاہوں گا: ’’روشنی دل میں چھپی میری سیاہ خواہش کو نہ دیکھے۔‘‘