• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

75 سال میں موجودہ مہنگائی نے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اور افراط زر یعنی مہنگائی (CPI)، 48 فیصد اور SPI، 45 فیصد کی بلند ترین شرح تک پہنچ گئی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی مالیاتی پالیسی کا مقصد افراط زر کو کنٹرول کرکے گروتھ میں اضافہ کرنا ہوتا ہے جس کیلئے وہ اپنے ڈسکائونٹ ریٹ میں اضافہ کرکے طلب میں کمی لاتا ہے تاکہ ڈیمانڈ میں کمی سے افراط زر یعنی مہنگائی کم ہو لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں اضافے سے نہ تو افراط زر یعنی مہنگائی میں کمی آئی ہے بلکہ وہ ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور نہ ہی جی ڈی پی گروتھ میں اضافہ ہوا ہے بلکہ وہ منفی سطح پر آگئی ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ 21فیصد سے مزید بڑھانے سے بینکوں کے قرضوں کی شرح سود 23 سے 24 فیصد ہوگئی ہے اور مالی لاگت بڑھنے سے سود کی ادائیگیاں ناقابل برداشت ہوگئی ہیں جس کے باعث بینکوں کی ادائیگیوں میں ڈیفالٹ ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں، نئی سرمایہ کاری رک گئی ہے، اسٹیٹ بینک کی تقریباً صفر شرح سود پر 5ارب ڈالر کی امپورٹ کی گئی مشینیں صنعتوں میں لگنے کے بجائے گوداموں میں پڑی ہیں کیونکہ ان مشینوں کو چلانے کیلئے بجلی اور گیس دستیاب نہیں اور بینکوں سے 24فیصد شرح سود پر اضافی ورکنگ کیپٹل کیلئے قرضے لینا ممکن نہیں رہا کیونکہ موجودہ معاشی حالات میں اس کی ادائیگی ممکن نہیں، آج ہم ایک ایک ڈالر کیلئے ترس رہے ہیں اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر سے 5ارب ڈالر تقریباً صفر شرح سود پر ان مشینوں کی امپورٹ پر ادا کئے گئے جس سے زرمبادلہ کےذخائر میں کمی ہوئی جو غلط پالیسی اور منصوبہ بندی کا واضح ثبوت ہے اور ثابت کرتا ہے کہ شرح سود میں اضافے سے مہنگائی میں کمی اور جی ڈی پی گروتھ میں اضافہ حاصل نہیں کیا جاسکتا یعنی بیماری کے علاج کیلئے جو دوا استعمال کی جارہی ہے، وہ مرض پر قابو پانے کے بجائے مہلک اثرات پیدا کررہی ہے جس سے بیماری مزید بڑھ رہی ہے۔ اشیاء کی طلب میں اضافے کی وجہ پاکستان کی بڑی غیر دستاویزی معیشت اور ہنڈی سے آنے والی ترسیلات زر اور منی چینجرز ہیں۔ اس وقت ملک میں 8.5کھرب روپے کی کرنسی سرکولیشن میں ہے جو جی ڈی پی کا 12.5فیصد بنتا ہے جس میں ایک بڑا حصہ غیر دستاویزی معیشت یعنی کیش لین دین کا ہے جن سے اشیاء کی طلب اور افراط زر میں اضافہ ہورہا ہے۔

اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات میں بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئےGST، PDL، ان ڈائریکٹ ٹیکسز لگانے اور امپورٹ کی حوصلہ شکنی کیلئے LCs پر پابندیاں ہیں جس سے سپلائی چین اور ملکی ایکسپورٹس بری طرح متاثر ہورہی ہے ۔ کھانے پینے کی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی روکنے اور پرائس کنٹرول میں انتظامیہ کی ناکامی سے بھی دکاندار عوام سے منہ مانگی قیمت وصول کررہے ہیں۔

اِن حقائق کے پیش نظر میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ افراط زر یعنی مہنگائی اسٹیٹ بینک کے شرح سود بڑھانے سے کم نہیں ہوگی بلکہ بینکوں کے 24فیصد ناقابل برداشت شرح سود سے صنعتیں بند ہونے سے بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ بینک نجی شعبے کو قرضے دینے کے بجائے حکومتی ٹریژری بلز میں 20 فیصد پر سرمایہ کاری کرکے ریکارڈ منافع کمارہے ہیں جس سے نجی شعبے کے قرضوں میں بہت کمی آئی ہے جو لمحہ فکریہ ہے ۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے پیش حکومت نے غیر ملکی ایئر لائنز کی 290 ملین ڈالر اور ڈیوڈنڈ کی ادائیگیوں کو روک رکھا ہے جس سے بیرونی سرمایہ کاروں کو منفی پیغام مل رہا ہے ۔ ہمیں ایکسپورٹس، ترسیلات زر اور بیرونی سرمایہ کاری کے تینوں ذرائع سے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ حاصل کرنا چاہئے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کیلئے ہمیں اسمگلنگ روک کر اپنے علاقائی ممالک جس میں ایران اور افغانستان سرفہرست ہیں،سے بارٹر ٹریڈ یعنی اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت کو فروغ دینا ہوگا تاکہ ڈالر اور دیگر کرنسیوں سے ادائیگی میں کمی لائی جاسکے۔پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر انرجی سیکٹر میں اصلاحات کرنا ہونگی جس میں آئی پی پیز کی ناقابل برداشت ادائیگیاں سرفہرست ہیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ جن آئی پی پیز سے معاہدے پورے ہوچکے ہیں، ان کے معاہدوں کی تجدید کے موقع پر کیپسٹی چارجز، منافع کی شرح اور ڈالر میں ادائیگیوں میں تبدیلیاں کرے، آج ہم 2500 ارب روپے پاور سیکٹر اور 1500 ارب روپے گیس سیکٹر کے گردشی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور پاکستان کا انرجی سیکٹر خطرناک معاشی بحران کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں اسٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے اور واپڈا کی فوری نجکاری ناگزیر ہے ۔ موجودہ نازک معاشی صورتحال میں بھی حکومت کو ان اداروں کو چلانے کیلئے تقریباً 500 ارب روپے سالانہ ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔ IMF معاہدہ کیلئے حکومت کی کراس فیول سبسڈی اسکیم سے دستبرداری خوش آئند ہے لیکن آئندہ بجٹ کو IMF معاہدے سے مشروط کرنا سوالیہ نشان ہے اور میرے نزدیک معاہدے کی بحالی کیلئے اب سفارتی مدد بھی درکار ہے۔ ملکی معاشی بحران کا ایک بڑا سبب موجودہ سیاسی عدم استحکام ہے ، تمام سیاسی جماعتیں جو الیکشن کی تاریخ کیلئے مذاکرات کررہی ہیں، میثاق معیشت یا کم از کم ایک ’’ایمرجنسی معاشی پلان‘‘ کیلئے بھی مل بیٹھیں کیونکہ ہمارے پاس اب مزید وقت نہیں ہے۔

تازہ ترین