• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقصیٰ منور ملک ، صادق آباد

یوں تو عورت کا ہر رُوپ ہی بے حد حسین ، قابلِ قدر ہے، لیکن جب وہ ماں کے رُتبے پر فائز ہوتی ہے، تو اس کی قدرومنزلت، مقام و مرتبے میں کئی سو گُنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ بےشک اولاد کے سب سے زیادہ قریب ماں ہی ہوتی ہےکہ اُس سے اُس کا رشتہ اس وقت جُڑ جاتا ہے، جب وہ ابھی دنیا میں آئی بھی نہیں ہوتی۔ ویسے تو باپ کی محبّت و شفقت کا بھی کوئی بدل، رتبہ کسی طور کم نہیں، لیکن پیارے نبیﷺنے ماں کی مشقّتوں کے سبب اُس کا رتبہ تین گنا بڑھادیا۔

اولاد کے لیے ماں کی تڑپ کا اندازہ سیرت نبیﷺ میں موجود اُس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک صحابیؓ نے ایک چڑیا کے بچّے پکڑ لیےاوروہ ممتا کی شدّت سے مغلوب ہوکران کے اردگرد منڈلاتی رہی، حتیٰ کہ رسولﷺ نے فرمایا ’’کس نے اس کو اس کے بچّوں سے متعلق  تکلیف پہنچائی ؟‘‘ پھر ان بچّوں کو آزاد کیا گیا، تواس بے قرار ماں کو قرار آیا، جس سے ظاہر ہوا کہ ماں،بس ماں ہوتی ہے، انسان کی ہو یا چرند، پرند کی۔

پھر ایک ماں وہ بھی تھیں، جو رضائے الٰہی کے لیے اپنے شِیرخوار بچّے کے ساتھ بے آب و گیاہ وادی میں تنہا رہنے کوبخوشی تیار ہوگئیں، مگر اپنے پیاس سے بے حال بچّے کو بلکتے، تڑپتے دیکھا تو صفاومروہ کی پہاڑیوں پر پانی کی تلاش میں دوڑ پڑیںاوراللہ ربّ العزت نے ’’زم زم‘‘ کی صُورت انعام سے نوازا۔مگر اُسؓ ماں کا امتحان وہیں ختم نہیں ہوابلکہ ایک اور کڑاامتحان لیا گیا۔ یوں تو وہ امتحان ربّ کریم نے اپنے ’’خلیل‘‘ کا لیا تھا،مگر اتنا ہی سخت ماں کے لیے بھی تھا، جنہوں نے بخوشی اپنے لخت جگرکو حکمِ خداوندی پر لبّیک کہتے ہوئے خود اپنے ہاتھوںسے تیار کرکےقربانی کے لیے بھیجا۔

اور اس ماں کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے، جنہوں نے اپنے بچّے کی جان فرعون سے بچانے کے لیے حکمِ خداوندی پر نومولود بچّے کوصندوق میں لٹا کر بہتی موجوں کے حوالے کر دیا،(لیکن بے قراری ایسی بڑھی کہ اگر اللہ پاک دل کو ڈھارس وتسلّی نہ دیتے، تو وہ راز فاش کر دیتیں۔)بہن صندوق کے ساتھ چلتی رہی اور لہروں نے صندوق قصرِ شاہی تک پہنچا دیا۔ پھر چشمِ فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ بچّے کی ماں نے نہ صرف اسے دودھ پلایا اور اللہ پاک نے دشمن ہی کے گھرمیں (وہی دشمن، جس نے اس بچّے کی وجہ سے ہزاروں بچّوں کو قتل کروایا) اُس بچّے کی پرورش کروائی۔ سلام سیدنا موسیٰ ؑ کی ماں پر۔

اُس ماں کے ایثار کا بھی احوال پڑھیے،جسے کاشانۂ نبوتؐ(سیدہ عائشہؓ کے حجرے سے) تین کھجوریں ملیں، اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں، تو ماں نے جب ایک، ایک کھجور دونوں بیٹیوں کو دے کر تیسری کھجور خود کھانے کے ارادے سےمنہ کی طرف بڑھائی توبیٹیوں نے وہ بھی مانگ لی، جس پر اس نے کھجور دو ٹکڑوں میں بانٹ دی،خودکچھ نہ کھایا اوراُٹھ کھڑی ہوئی۔جب حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اس ماں کے ایثارکا واقعہ نبی کریمﷺکو سنایا، توآپﷺنے فرمایا ’’اسی کے عوض اسے جہنم سے آزاد کردیا گیا۔‘‘ 

پھر ایک وہ ماں بھی تھیں، جو جنگ میں اپنے چاربیٹوں کو لے کرآئیں، مخاطب کرکے نصیحت کی’’پیارےبیٹو! تم نے اسلام اور ہجرت اپنی مرضی سے اختیارکی ہے، ورنہ تم اپنے مُلک کو بھاری نہ تھے اور نہ تمہارے یہاں قحط پڑاتھا، باوجود اس کے، خدا کی قسم تم ایک ماں اورباپ کی اولاد ہو۔ مَیں نے نہ تمہارے باپ سے خیانت کی اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا۔ تم جانتے ہو کہ دنیافانی ہے اور کفار سے جہاد کرنے میں بڑا ثواب ہے۔ صبح اُٹھ کر لڑنےکی تیاری کرواورآخر وقت تک لڑو۔‘‘ چناں چہ بیٹوں نے باگیں اُٹھائیں ،نہایت جوش میں آگے بڑھے اورچاروں شہید ہوگئے۔جب ماں کوخبرہوئی، تو اس نے بجائے غم زدہ ہونے کے، اللہ کا شکر ادا کیا۔ سلام ہو سیدہ خنساءؓ پر۔

اور…اس ماں کا ذکر کیسے نہ ہو کہ جس نے اپنے جگرپاروں کو اسلام کی بقا و سربلندی کی خاطر اپنی نظروں کے سامنے کربلا میں شہید ہوتا دیکھا اور اپنے صبروایثار سے قیامت تک آنے والی مائوں کے لیے مینارۂ نور بن گئیں، سلام ہوسیدنا زینب بنتِ علیؓ پر۔ آج بھی انہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اَن گنت مائیں اپنے جان کے ٹکڑوں کو وطن کی خاطر قربان کردیتی ہیں۔ کشمیر وفلسطین کی بظاہر کم زور، دَرحقیقت نہایت مضبوط، چٹانوں سی سختی لیے خاموش نم آنکھوں والی مائیں ہوں یاوہ مائیں ، جن کے نورِ نظر سرحدوں پر شہید ہوگئے، سلام ان سب مائوں پر۔