• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے وزیرِ خارجہ، بلاول بھٹّو نے بھارت میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کی۔ کیا یہ دورہ اور ملاقاتیں برّصغیر کے عوام کے لیے امن کی کوئی خبر لاسکتے ہیں، یہ دیکھنے کے لیےجولائی کے سربراہ اجلاس کا انتظار کرنا ہوگا۔ حالیہ اجلاس بھی جولائی کےسربراہی اجلاس کےایجنڈے اور اہم نُکات پر غور کے لیےمنعقد ہوا تھا۔ سربراہی اجلاس بھی بھارت ہی میں ہوگا کہ وہ اِن دنوں تنظیم کا چیئرمین ہے۔ پاکستانی وزیرِ خارجہ کی ایس سی او میں شرکت کوئی حیرت کی بات ہے اور نہ ہی تشویش ناک، بلکہ یہ ایک عالمی فورم کے معمول کے طریقۂ کار کے مطابق ہے۔ 

شنگھائی فورم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اِس مرتبہ بھارت کے ساحلی شہر، گوا میں ہوا، جس میں پہلی مرتبہ اقتصادی معاملات زیرِ بحث آئے، جب کہ اِس سے قبل انسدادِ دہشت گردی ہی پر فوکس رہتا تھا۔ چوں کہ کسی پاکستانی وزیرِ خارجہ نے بارہ سال بعد بھارتی سرزمین پر قدم رکھا، تو ظاہر ہے، بلاول بہت فوکس میں رہے۔ جن لوگوں کو اِس شرکت پر اعتراض تھا، اُس کا پس منظر کشمیر پر دونوں ممالک کا شدید تنازع ہے، جو تین سال قبل مودی حکومت کےاقدامات کی وجہ سےمزید گمبھیر ہوا، جب بھارتی آئین کی شِق36 ختم کردی گئی اور اُسے ہٹ دھرمی سے بھارت کا صوبہ بنا لیا گیا، جو بین الاقوامی اصولوں کے منافی تھا۔ 

تاہم، ایس سی اوکایہ اجلاس دوطرفہ نہیں بلکہ کثیر الملکی فورم پر ہو رہا تھا، پھر یہ کہ ہمیں چین کو کشمیر کی حسّاس صُورتِ حال بتانےکی ضرورت نہیں، کیوں کہ وہ خود کشمیر تنازعے کا ایک فریق ہے، ہر عالمی اورعلاقائی فورم پراُس نے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی حمایت کی اور ہمیشہ اس موقف پرسختی سےڈٹارہاکہ کشمیر کا فیصلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کےمطابق ہونا چاہیے۔ بلاول بھٹو اگر شنگھائی فورم میں شرکت کے لیے گئے، تو یہ کسی دبائو یا مجبوری کے تحت نہیں تھا، بلکہ یہ ہماری چین سے اُس دوستی کاثبوت تھاکہ جسے ’’آل ویدر فرینڈشپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، اجلاس میں جو رُکن ممالک شرکت کر رہے تھے، وہ بھی ہمارے لیے بہت اہم ہیں۔

شنگھائی فورم اجلاس میں شرکت اِس لیے بھی بہت اہم تھی کہ امریکا کے افغانستان سے جانے کے بعد خطّے میں جو صُورتِ حال پیدا ہوئی، اُس کے حل کے لیے علاقائی ممالک کس طرح سوچتے ہیں، یہ دیکھنا ضروری تھا۔ یاد رہے، شنگھائی فورم کے چار رُکن وسط ایشیا کے مسلم ممالک ہیں، جن سے ہمارے دوطرفہ تعلقات ہیں۔ پھر آج دنیا کو جو سب سے اہم معاملہ درپیش ہے، وہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ ہے۔ چین اور روس میں بہت سے معاملات، خاص طور پر مغرب سےمقابلے کی حکمتِ عملی پر خاصی ہم آہنگی پائی جاتی ہے، جو صدر شی جن پنگ اور صدرپیوٹن کی حالیہ ملاقات سے مزید مضبوط ہوئی۔ 

اسلام آباد کے لیے جاننا ضروری ہےکہ یوکرین کی جنگ کس کروٹ بیٹھے گی، اِسی لیے بلاول بھٹو نے روسی وزیرِ خارجہ سےسائیڈ لائن پر بات چیت کی۔ عین ممکن ہے کہ اِس فورم سے جنگ سے متاثرہ ممالک کے لیے معاشی فوائد نکل سکیں، کیوں کہ یہ اقتصادی معاملات بھی دیکھتا ہے۔ بھارت اِس فورم کا اہم رُکن ہے، اس کے چین، روس اور امریکا تینوں بڑی طاقتوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں، تو کیا ہمارے لیے یہ جاننا ضروری نہیں کہ اس ہم سائے کی سوچ اور حکمتِ عملی کس رُخ پر جارہی ہے۔ دہشت گردی نہ صرف پاکستان بلکہ علاقے کے اکثر ممالک کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ شنگھائی فورم کے تحت گزشتہ سالوں میں مسلسل ایسی مشترکہ فوجی مشقیں ہوتی رہیں، جو اس عفریت کی بیخ کنی کر سکیں۔ 

پاکستان ان فوجی مشقوں میں شامل ہوتا رہا، جن میں سے زیادہ تر روس میں یورال کی پہاڑیوں میں ہوئیں۔ یہ عمران خان کا دورِ حکومت تھا۔ اگر پاکستان اپنے دوستوں کے بنائے ہوئے فورمز سے بھی باہر کھڑا ہوجائے گا، تو اُسے مزید عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا، جسے اُس کے دوست پسند کریں گے اور نہ ہی خیر خواہ، اور اُن کے لیے مشکل وقت میں ہماری مدد کرنا مزید مشکل ہوجائے گا۔ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف اس کی بہترین مثال ہیں۔

منہگائی، منہگائی چیختے رہنااوراُسےسیاسی پوائنٹ اسکورنگ کےلیےاستعمال کرنا ایک بات ہے، لیکن اُس کا عملی حل تلاش کرنا بالکل دوسری بات ہے۔ خواہ کوئی بھی جماعت حکومت میں ہو، اُسے یہی سفارتی راستے اختیار کرنا پڑیں گے۔ موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ جاتاہےکہ اس نےسفارتی اوربین الاقوامی معاملات، اندرونی معاملات سے علیٰحدہ رکھے اور اندرونی تلخیوں کے باوجود حوصلہ دِکھایا، اس سے چین اور باقی دنیا کو ایک اچھا پیغام گیا۔ پاکستانی عوام کی امن کی خواہش کو توانائی ملی۔

شنگھائی فورم، جسے ایس سی او بھی کہا جاتا ہے، چین کی کوششوں سےوجود میں آنے والی یورو، ایشین تنظیم ہے، جس کا سادہ مطلب یہ ہوا کہ اس میں ایشیائی ممالک بھی شامل ہیں اور یورپی بھی۔ یہ دنیا کی چالیس فی صد آبادی کی نمائندہ ہے۔ یہ شنگھائی فائیو کی وارث ہے، جس میں چین، روس اور تین وسط ایشیائی ممالک شامل تھے، جنہوں نے1996 ء میں اسے قائم کیا۔ 15 جون2001 ء کو ہونے والے اجلاس میں تنظیم کو وسعت دینے کے لیے مزید ایشیائی اور یورپی ممالک کو رُکنیت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اب اس کے آٹھ رُکن ہیں، جن میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں، جنہیں جون 2017ء میں رُکن بنایاگیا۔ 

اس کا سپریم اور فیصلہ ساز ادارہ، سربراہ کاؤنسل ہے، جو چین، قازقستان، کرغیزستان، روس، بھارت، پاکستان اور تاجکستان کےسربراہان پر مشتمل ہے۔ ایس سی او سیاسی، اقتصادی، دفاعی اور بین الاقوامی سیکیوریٹی کی تنظیم ہے۔ اکثر ماہرین اور مغربی مُلک اسے چین کی جانب سے نیٹو کا متبادل فورم سمجھتے ہیں۔ ہمارے کچھ اہلِ دانش اور تجزیہ کاروں کی خواہش ہے کہ امریکی طاقت کا کوئی متبادل بنے، تو اس کی ابتدائی شکل یہی فورم ہے، تاہم، اس میں بھارت کاسرگرم کردار ہمیں مشکل ہی سے قبول ہوگا۔ ایس سی او کے پلیٹ فارم پر دہشت گردی سےنمٹنےکے لیے مشترکہ فوجی مشقیں ہوتی ہیں، جن میں پاکستان اور بھارت کے فوجی دستے بھی شامل ہوتے ہیں۔

ریاستوں کے سربراہ، وزرائےخارجہ اوردیگروزرا کے باقاعدگی سے اجلاس ہوتے ہیں۔ اگر ایس سی او کے موجودہ ڈھانچے پر نظر ڈالی جائے، تو اس میں دفاعی نقطۂ نظر سے اینٹی ٹیررازم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جس اجلاس میں شرکت کے لیے بلاول بھارت گئے، وہ کاؤنسل آف فارن منسٹرز ہے، جو سربراہانِ حکومت کی میٹنگ اور فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تنظیم کے مستقبل کے اقتصادی، سیاسی اور دفاعی امور پر گہری نظر بھی رکھتی ہے اور ان کے متعلق پالیسی بھی وضع کرتی ہے۔

اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے نہ صرف پاک، چین تناظر میں، بلکہ بین الاقوامی اور علاقےکی بدلتی صُورتِ حال کے تناظر میں بھی یہ اجلاس کس قدر اہمیت کا حامل تھا۔ چین نے حال ہی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تاریخی معاہدہ کروایا، جس کے اثرات دور رَس ہوں گے۔ شنگھائی فورم اجلاس میں شریک تمام ممالک کے ریاض اور تہران سے بہت گہرے تعلقات ہیں، ظاہر ہے کہ یہ معاملہ بھی زیرِ بحث آیا ہوگا۔ پھر پاکستان، بھارت، چین اور روس کے تیل کے مفادات بھی ان ممالک سے وابستہ ہیں۔ چین اور روس تو ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل میں بھی شامل تھے، جس سے اب امریکا باہر ہے۔

ان سب معاملات پر پاکستان کے لیے بڑی طاقتوں اور علاقائی ممالک کا ردِعمل جاننا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی مستقبل کی خارجہ، اقتصادی اور دفاعی پالیسیز تشکیل دے سکے اور یہ کام گھر بیٹھے یا محض بیانات دینے سے تو نہیں ہو سکتا۔ کورونا، یوکرین جنگ، افغانستان سے امریکی انخلا، تائیوان کےمعاملات اور آکوس معاہدے نے بھی دنیا پر گہرے اثرات مرتّب کیے ہیں۔ بھارت کواڈ فورم کا رُکن ہے، جس کے روح رواں امریکا اور برطانیہ ہیں اور جس کا مقصد چین کو قابو کرنا ہے۔ یہ سب جاننا ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ اِس طرح کے معاملات سے براہِ راست متاثر ہونے والے ممالک کیا سوچ رہے ہیں، یہ اِس لیے بھی اہم ہے کہ کہیں بدلتے حالات میں ہم کوئی غلط قدم اُٹھا کر نقصان نہ کر بیٹھیں۔ 

فارن پالیسی پلاننگ میں ایسے فورمز میں شرکت بہت ضروری ہوتی ہے، اِس لیے اس پر تنقید سمجھ سے بالاتر ہے۔ اِسی سے پتا چلتا ہے کہ ہم باتیں بہت زیادہ کرتے ہیں۔ بحث مباحثے اور فضول تھیوریز گھڑنےکےشوقین ہیں، لیکن جہاں سےاصل معلومات حاصل ہوتی ہیں، اُن سورسز اور فورمز کی اہمیت کا ادارک نہیں رکھتے۔ ہم ہر عالمی ادارے پر ناکامی کا لیبل لگا دیتے ہیں اور بعد میں وہیں سے امداد کے بھی خواہاں ہوتےہیں۔ اب اِس لاعلمی اور بےعملی کو کیا نام دیا جائے۔ یاد رہے، دبئی میں ہونے والے او آئی سی اجلاس کا اُس وقت کے وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی نے بائیکاٹ کیا تھا، جس پر بڑی واہ واہ بھی ہوئی کہ حکومت نے بہت جرأت دِکھائی، اس اقدام کی وجہ بھارت کی وزیرِخارجہ کی اجلاس میں شرکت بتائی گئی۔ 

بھارت اور یو اے ای کو تو اس بائیکاٹ سے کوئی نقصان نہیں ہوا، بلکہ وہ مزید قریب آ گئے، تاہم پاکستان کو یو اے ای سے تعلقات ٹھیک کرنے میں بہت وقت لگا۔ اصل میں یہ اقدام اس خواہش کا عکّاس تھا کہ تمام مسلم ممالک ہماری مرضی کے مطابق چلیں کہ ہم ایک نیوکلیئر طاقت اور بڑی آبادی کا مُلک ہیں، جب کہ حال یہ ہےکہ چھوٹےچھوٹے ممالک سے بھی قرضے مانگتے پِھرتے ہیں۔ عمران خان نے سی پیک کی مخالفت کی، جس کی سزا چین کی ناراضی کی شکل میں عرصے تک بُھگتنی پڑی۔ اِسی طرح امریکا کے خلاف سائفر اور سازش کے بیانیے سے ہونے والے نقصانات تو خود پی ٹی آئی کے لیے بھی دردِ سر بنے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ عمران خان آئے دن امریکا کے ارکانِ پارلیمان کو فون کرتے رہتے ہیں اور لابنگ فرمز کو ماہانہ ہزاروں ڈالرز ادا کرتے ہیں۔ اِسی تناظر میں وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو کی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کو دیکھنا چاہیے۔ اس پر پوائنٹ اسکورنگ کی گئی، تو کوئی بھی حکومت میں ہو، اُسے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔

پاکستانیوں پر یہ ٹھپّا لگانا بھی مناسب نہیں کہ وہ جذباتی فیصلے ہی کرتے ہیں اور اُنہیں بین الاقوامی معاملات کا کوئی ادراک نہیں۔ البتہ، ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ہر مُلک اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔ ہر وقت غصّے میں رہنا، منہ سے جھاگ اُڑاتےرہنا کوئی دانش مندی نہیں اور پھر ہر شخص کو اِن معاملات کا ماہر بننے کی بھی کوئی ضرورت نہیں کہ سفارت کاری ٹی وی ٹاک شوز ہے اور نہ ہی روایتی تجزیہ کاری، یہ بہت حسّاس اور سنجیدہ معاملہ ہے۔ یہ ذہن میں رکھا جائے کہ چین ہمارا ہر شعبے میں مدد کرنے والا دوست ہے۔ گو، شنگھائی تنظیم کا دو طرفہ معاملات میں ثالثی کا کوئی ریکارڈ نہیں، تاہم چین کے صدر نے عالمی اور خاص طور پر علاقائی امن کے لیے حالیہ دنوں میں جو پیش رفت کی ہے، اس سے یہ امکان نظر آتاہے کہ وہ پاک، بھارت تنازعات کا بھی کوئی دیرپا حل نکالنے میں کردار ادا کرسکیں گے۔ 

یہ بات بار بار دُہرانے کی ضرورت نہیں کہ چین کے بھارت اور امریکا کے درمیان قربتوں پر بہت سے تحفّظات ہیں، تاہم اس کےباوجود اُس نےبھارت سےتعلقات پُرامن ہی نہیں، باہمی طور پر سُودمند رکھنے میں بھی کوئی کمی نہیں اُٹھا رکھی۔ حال ہی میں بھارت اور چین کے وزرائے دفاع نے ملاقات کی تاکہ پہاڑی سرحد پر کشیدگی کم ہو سکے۔ دونوں بڑے ممالک کا تجارتی حجم ایک سو بلین ڈالرز سے آگے جاچکا ہے، حالاں کہ دونوں بہت سے میدانوں میں ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ شنگھائی فورم اجلاس میں پاک، بھارت وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات نہیں ہوئی۔ 

ظاہر ہے، اِس طرح کے اقدامات سے دونوں طرف عوامی ٹمپریچر یک دَم ہائی ہوجاتا ہے۔ ہمارے مُلک میں یہ معاملہ خفیہ ڈیل، امریکی اور صہیونی سازش، کشمیر کا سودا کرنےاور مسلم امّہ سےغدّاری تک کے افسانوں تک چلا جاتا ہے۔ بھارت میں بھی جس قسم کی مسلم دشمن پالیسی اپنائی گئی ہے، اُس میں کوئی فوری بریک تھرو اُن کی حکومت کے لیے الارمنگ ہوسکتا ہے، خاص طور پر جب آئندہ سال وہاں انتخابات بھی ہو رہے ہوں۔ 

تاہم، یہ شنگھائی فورم کی ایک بڑی کام یابی کہی جاسکتی ہے کہ پاکستانی وزیرِ خارجہ پہلے اِس سطح کے عُہدے دار تھے، جس نے برسوں بعد بھارتی سر زمین پر قدم رکھا۔ دوست آپ کو موقع تو فراہم کرسکتے ہیں، لیکن پلیٹ میں رکھا ہوا کھانا اپنے ہاتھ ہی سے کھانا ہوگا۔ اس کے لیے خواہش، عزم اور حوصلے کی ضرورت ہے، جو دونوں ممالک کی لیڈرشپ میں ہونا چاہیے۔ چین اور بھارت، چین اور امریکا بھی ایک دوسرے پر بہت سےالزامات لگاتے ہیں، لیکن بات چیت اور تعاون کے دروازے بند نہیں کرتے، جس کا نتیجہ اُن کے مُلک کی ترقّی کی صُورت نکلتا ہے۔