• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ تاریخ کی عجب ستم ظریفی تھی کہ 1919ء میں ایک طرف ہندوستان میں ہنگاموں کا لامتناہی سلسلہ جاری تھا، تو دوسری طرف لندن میں وزیرِ ہند مسٹر مانٹیگو اَپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے نئی آئینی اصلاحات کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کر رہے تھے۔ مختلف مراحل سے گزرتی ہوئیں یہ آئینی تجاویز دسمبر کے آخر تک ایکٹ بن گئیں جس کے تحت 1920ء میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایسے سیاسی ماحول میں ہوئے جس میں کانگریس نے اُن کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔بظاہر یہ آئینی اصلاحات کئی اعتبار سے ارتقائی عمل کا ایک حصّہ تھیں، مگر اُن میں سامراجی ذہنیت پوری طرح کارفرما تھی جس کا مقصود ہندوستان کے اہم اور فیصلہ کُن معاملات پر تاجِ برطانیہ کی مضبوط گرفت رکھنا اور گورنرجنرل کو اسمبلی اور وُزرا کے فیصلوں کی جکڑبندیوں سے آزاد کر دینا تھا۔ بلاشبہ 1909ء کی آئینی اصلاحات کے مقابلے میں اِس بار ہندوستانیوں کو اَظہارِ خیال کے بہتر مواقع دیے گئے تھے اور مرکزی قانون ساز اسمبلی کی ہیئت بھی قدرے بہتر ہو گئی تھی، لیکن اصل اختیارات گورنرجنرل اور صوبائی گورنروں کے پاس تھے۔ اِس غیرتسلی بخش صورتِ حال سے آنے والے برسوں میں بڑے بڑے سیاسی تغیّرات نے جنم لیا جن سے ہندو مسلم اتحاد کا رومانس چند برسوں ہی میں شدید نفرتوں اور دُشمنیوں میں تبدیل ہو گیا۔

1919ء کی آئینی اصلاحات کے امتیازی خدوخال درج ذیل تھے:

(1) ہندوستان کے کلیدی امور کی نگرانی، رہنمائی اور اُن کا نظم و نسق وزیرِ ہند کے اختیار ہی میں رہیں گے جبکہ گورنرجنرل اُس کے احکام بجا لانے کا پابند ہو گا۔ (2) 1919ء کے ایکٹ میں مرکز کی امپریل لیجیسلیٹو کونسل کی جگہ دو اَیوانی مقننہ تجویز کی گئی اور اِیوانِ زیریں کا نام ’’مرکزی قانون ساز اسمبلی‘‘ اور اِیوانِ بالا کا نام ’’کونسل آف اسٹیٹ‘‘ رکھا گیا۔ (3) دونوں ایوانوں کے لیے بلاواسطہ انتخابات کی سفارش کی گئی تھی۔ اِس کے علاوہ رَائےدہندگان پر جائیداد کی شرائط میں کسی قدر نرمی پیدا کی گئی۔ پہلی مرتبہ مرکزی اسمبلی میں کمیٹی سسٹم رائج ہوا، اگرچہ ارکانِ کمیٹی کا استحقاق اور اُن کے آئینی اختیارات بڑے محدود تھے۔ (4) ایوانِ زیریں کی میعاد تین سال جبکہ ایوانِ بالا کی پانچ سال مقرر ہوئی جس میں توسیع کرنے کا گورنر جنرل کو اختیار تھا۔ (5) گورنرجنرل مرکزی قانون ساز اسمبلی کا اجلاس بلانے، اُس سے خطاب کرنے اور اَسمبلی تحلیل کرنے کا مجاز تھا۔ (6) مرکزی قانون ساز اسمبلی پورے ہندوستان کیلئے قانون بنانے اور کسی مروجہ قانون میں ترمیم یا اُسے منسوخ کرنے کا اختیار رَکھتی تھی، البتہ کسی ہائی کورٹ کو ختم کرنے کیلئے وزیرِ ہند سے پیشگی منظوری لینا ضروری تھی۔ (7) گورنرجنرل کسی ایسے بِل یا قانون کی منظوری روک دینے کا مجاز تھا جو اُس کے خیال میں ملکی سلامتی کے خلاف ہو۔ (8) گورنرجنرل کو چھ ماہ کیلئے آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار تھا جسے منظورشدہ قانون کا درجہ دیا گیا تھا۔ وہ مرکزی قانون ساز اسمبلی سے منظورشدہ کسی قانون کو ویٹو کرنے یا اُسے دوبارہ غور و خوض کیلئے واپس اسمبلی کو بھیج دینے کا مجاز تھا۔ وہ مقننہ سے بالا بالا بھی قانون سازی کے اختیار سے لیس تھا۔ (9) بجٹ منظوری کیلئے مرکزی قانون ساز اسمبلی میں پیش کیا جاتا، لیکن بہت سارے مطالباتِ زر پر بحث اور ووٹنگ کی اجازت نہیں تھی۔

اِس ایکٹ کے تحت صوبوں میں ’’دوعملی حکومتیں‘‘ قائم کی گئیں جن میں صوبے کی انتظامیہ دو حصّوں میں تقسیم کر دی گئی۔ ایک حصّہ مقننہ جبکہ دوسرا حصّہ گورنر یا گورنرجنرل کے ذریعے فقط برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ تھا۔ تعلیم، صحتِ عامہ، لوکل سیلف گورنمنٹ، پبلک ورکس، صنعت جیسے محکمے منتخب وزیروں کی تحویل میں دیے گئے تھے اور پولیس، قیامِ امن، انتظامیہ، مالیات، زمینی محصولات، آبپاشی جیسے اہم اور بڑے محکمے سرکاری ملازمین کی تحویل میں رہے جو بالعموم آئی سی ایس افسر تھے۔ اِس اعتبار سے وزیروں کی تحویل میں دیے گئے محکمے عملی طور پر اُن محکموں کے رحم و کرم پر تھے جن کا کنٹرول سرکاری افسروں کے ہاتھ میں تھا اور جملہ مالی اور اِنتظامی وسائل اُن کے پاس تھے۔

گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919ء میں جو ایوانِ بالا تشکیل دیا گیا تھا، وہ 60؍ارکان پر مشتمل تھا جن میں 36 منتخب اور باقی غیرمنتخب اراکین تھے۔ 36 منتخب اراکین میں 19عام نشستوں اور باقی جداگانہ طریقِ انتخاب سے چُنے جاتے۔ اُن میں سے گیارہ نشستیں مسلمانوں، ایک سکھوں اور تین یورپین کے لیے مخصوص تھیں۔ ایوانِ زیریں 145؍ارکان پر مشتمل تھا جن میں 26سرکاری اور 14 غیرسرکاری نامزدگان اور باقی 105 منتخب ارکان شامل تھے۔ 105منتخب ارکان میں سے 53عام نشستوں سے منتخب کیے جاتے جبکہ 30مسلمان، 2 سکھوں، 9 یورپین، 7 زمیندار اَور 4؍ایوانِ صنعت کے لیے مخصوص تھیں۔ جداگانہ انتخاب کے علاوہ اِس ایکٹ میں اقلیتی صوبوں کے اندر مسلمانوں کو اُن کی آبادی سے زیادہ نشستیں فراہم کی گئی تھیں۔ اِس پاسنگ سے مسلمانوں کو یوپی، مدراس اور مرکز میں آبادی سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں، مگر بنگال اور پنجاب میں اُن کی اکثریت بری طرح متاثر ہوئی جو 1937ء اور 1945ء کے انتخابات کے بعد حکومت سازی میں شدید مشکلات پیدا کرنے کا باعث بنی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین