• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ہم تو صاحبِ ترتیب ہیں

19فروری کاشمارہ موصول ہوا۔ سرورق پر پیراہن زرتار میں پیکر سیمیں کا جلوہ دیکھتے ہوئے آگے بڑھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی ’’مدینہ منّورہ، عہدِقدیم سےدورِجدید تک‘‘ کی11 ویں قسط میں غزوۂ بدر جیسے تاریخِ انسانی کے محیّر العقول معرکے میں مسلمانوں کی فتح و نُصرت اور قریش (کفّارِ مکّہ) کی ذلت آمیز شکست کا تذکرہ کررہے تھے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل ترکیہ اور شام کے زلزلے سے ہونے والی تباہی و بربادی پر نوحہ کُناں تھیں۔ ہزاروں ہلاکتوں نے ہر مسلمان کا دل فگار کردیا کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک جسم کےمانند ہیں، کسی بھی عضو کو تکلیف ہو، تو سارا جسم بےچین ہو جاتا ہے۔ 

پروفیسر سیما ناز صدیقی نے بھی ماہر ارضیات کی حیثیت سے خاصی تحقیقی اور سیرحاصل بحث کی۔ ’’حالات و واقعات‘‘میں منور مرزا مُلکی حالات اور معاشی بحران کاذمّےدار حُکم رانوں کی نااہلی کو ٹھہرا رہے تھے اور ساتھ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ عوام، مُلکی استحکام کی خاطر متحد ہو کر ہی اس بحران کا حل نکال سکتے ہیں۔ ’’گفتگو‘‘ میں رئوف ظفر معروف کالم نگار، دانش وَر، حمّاد غزنوی سے فکر انگیز بات چیت کر رہے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایوب کے مارشل لاء ہی نے مُلک کوپٹری سےاُتارا۔ عوام میں احساسِ محرومی پیدا ہوااوراسی کےنتیجےمیں ہم سےمشرقی پاکستان جُدا ہوا اور تب سے آج تک ہم صحیح معنوں میں جمہوریت سے محروم ہیں۔ یہ بھی صحیح نشان دہی کی کہ عمران خان نے گھروں، خاندانوں میں اختلاف پیدا کردیا ہے۔ مُلک کی بنیادیں ہلا کےرکھ دی ہیں۔ 

پی ٹی آئی کارکنوں، ہم دردوں کو سوچنا چاہیےکہ یہ شخص کیسے شہدمیں زہر گھول کر دے رہا ہے۔ یہ کیسی سیاست ہے کہ پہلے استعفیٰ دو اور پھر دوبارہ الیکشن لڑ کر اُن ہی اسمبلیوں میں جا بیٹھو۔ ملک کی ڈوبتی معیشت پراربوں روپے کے الیکشن اخراجات کا بوجھ ڈال کر کیا خالی خزانے کو بالکل ہی صفاچٹ کرنا ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں آپ کے رائٹ اَپ سے صرف ِ نظر کیسے کرسکتےہیں۔ آج کل تو’’چُپڑی اور دو دو‘‘ والا معاملہ ہے۔ بہترین اشعار اور خُوب صورت ماڈلنگ، صفحات کو چار چاند لگارہے ہیں۔ ہم تو صاحبِ ترتیب ہیں، اس لیے پہلےصفحے ہی سے مطالعہ شروع کرتےہیں، مگر آخری صفحے سےمطالعہ کرنے والے سینٹراسپریڈ ہی سے مطالعہ شروع کر دیں، بعید نہیں۔ ’’رپورٹ‘‘ میں منور راجپوت فکر کُناں تھے کہ بڑی زبانیں چھوٹی زبانوں کو نگل رہی ہیں، تو ایسا تو ہوتا ہے۔ 

یہی تو قدرت کے عجائبات ہیں، بڑے سیارے چھوٹوں کو نگل رہے ہیں۔ پھرتاریخِ ارضی بتاتی ہے کہ بڑی قومیں، چھوٹی قوموں کاصفایاکردیتی ہیں اوربڑی مخلوق چھوٹی کو نیست و نابود۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال سماجی انصاف کے عالمی یوم پر فکر انگیزتحریرلائے۔ واقعی ملازمت پیشہ افراد سماجی ناانصافی کا زیادہ شکار ہیں، بڑے صاحب ہٹلر بن کر گرجتے، برستے رہتےہیں اور بعض ستم ظریف تو ایسا سلوک کرتے ہیں، جیسے ماتحت انسان نہیں، جانور ہوں۔ تاریخ میں قرون اولیٰ کے بہترین سماجی انصاف کو یاد کیا جاتا ہے۔ اُس کےبعد اور اُس سےپہلے ایسا سنہری دَور انسان نےکبھی نہیں دیکھا۔ سو، اگرسماجی انصاف قائم کرنا ہے، تو اُسی نظام سےرجوع کرنا ہوگا۔ 

’’دہلی نامہ‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا، اندرا گاندھی میوزیم کا آنکھوں دیکھا حال بتانےکے ساتھ، اُن کی الم ناک حادثاتی موت اور بھٹو خاندان کی اموات کا موازنہ کر رہے تھے۔ ’’ناقابل فراموش‘‘ کے دونوں واقعات متاثرکُن تھے۔ نئی کتابوں پر اختر سعیدی بےلاگ تبصرہ کرتے ہیں۔ اور اب بات ہمارے باغ و بہار صفحےکی، اس بار، اس ہفتے کی چٹھی کا اعزاز نورالہدیٰ کے نام رہا، جو ہمارے ضلعے میر پور خاص ہی کی رہائشی ہیں، پھر ہماری چٹھی بھی شاملِ بزم تھیاور آپ نے یہ بھی بجا فرمایاکہ عوام آنکھ بند کر کے جھوٹے نعروں اور بلند بانگ دعووں کے پیچھے چلتے ہیں، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ ؎ ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: صاحبِ ترتیب صاحب! اگر آپ مختصر نویسی پر بھی تھوڑا غور فرمائیں، تو بخدا کئی زندگیاں (جن میں سرفہرست ہماری ہے)آسان ہوسکتی ہیں۔

بندے کی حوصلہ افزائی

آپ نے قبل ازیں بندے کی تحریر ’’عجائباتِ عالم‘‘ شائع کرکے جس طرح حوصلہ افزائی فرمائی، اُس پر بندہ آپ کا بےحد ممنون و شُکر گزار ہے۔ اُمید ہے کہ آپ بندے کی اِسی طرح حوصلہ افزائی فرماتی رہیں گی۔ ’’شعبان المعظم‘‘کےحوالےسےایک تحریر حاضرِ خدمت ہے۔ شایع کرکےبندے کی مزید حوصلہ افزائی فرمائیں۔ شکریہ (بابر سلیم خان، سلامتی پورہ، لاہور)

ج: ارے بھئی، آپ کو کیا لگتا ہے کہ اِس طرح بندے، بندے کی گردان سے کسی میں یک دَم بندہ پروری، بندہ نوازی کے اوصاف جنم لینے لگتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے اور یوں بھی ہمارے یہاں کسی بھی تحریر کی اشاعت کا صرف ایک پیمانہ ہے،اور وہ ہے، ’’میرٹ‘‘۔ تو آپ کی جو بھی تحریر میرٹ پر پوری اُترے گی، اِس گردان کے بغیر بھی شایع ہوجائے گی۔

تاحال اشاعت سے محروم

اُمید ہے، آپ اور آپ کی ٹیم خیریت سے ہوگی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی مدینہ منوّرہ کےذکر سے صفحے کو خُوب روشن کررہے ہیں اور پھر ہر بار تحریرختم بھی ایسی جگہ پر ہوتی ہےکہ اگلی قسط کا شدّت سے انتظار رہتا ہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال نے تعلیم ہی کو اصل، حقیقی سرمایہ قرار دیا اور صد فی صد برحق ہی قرار دیا۔ ’’فیچر‘‘ میں منور راجپوت نے ہندوستان کے دو بادشاہوں کا ذکر کیا، جو ریاست میں اصلاحات پسند کرتے تھے اور اپنی اس کوشش میں کام یاب بھی رہے۔ منور مرزا ہمیشہ کی طرح عالمی افق پر چھائے نظر آئے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ’’دہلی نامہ‘‘ کے ذریعے بغیر ٹکٹ دہلی کا سفر کر رہے ہیں، خصوصاً مرزا اسد اللہ غالب کے بستی نظام الدین میں موجود مزار سےمتعلق پڑھ کر اچھا لگا۔ 

’’انٹرویو‘‘ میں بلوچستان کے معروف سیاسی رہنما، ادیب، شاعر، ڈاکٹر سلیم کُرد سے بات چیت معلوماتی تھی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر عادل حسن جگر کےسرطان سے ڈرا رہے تھے، جب کہ پروفیسر ڈاکٹر سیّد امجد علی جعفری نے گردے میں پتھری کے اسباب بیان کیے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ملک محمّد اسلم پوچھ رہےتھےکہ خواتین پر آخر کب تک ظلم ہوتا رہے گا؟ اقصیٰ منور ملک سفارش پر اجر و ثواب کا سبق لیے آئیں۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی کہانیاں دل پر اثر کر گئیں۔ ’’متفرق‘‘ میں نئے عجائبات ایک منفرد تحریر تھی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عائشہ پری وش نے خُوب ’’کفّارہ‘‘ ادا کیااورعشرت زاہد کی ’’زمین پر فرشتے ‘‘ اچھی نظم تھی۔ ہاں، ایک شکایت ہے، میں نے اِس خط سے پہلے بھی کئی خط لکھے، جو تاحال اشاعت سے محروم ہیں۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: ایک بات تو طے ہے کہ آپ کا کوئی خط اشاعت سے محروم نہیں۔ جس باقاعدگی سے ہفتہ وار آپ کے خطوط موصول ہوتے ہیں، خال ہی کسی قاری کے ہوتے ہوں گے۔ ہاں، یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم اُنھیں ہفتہ وار شایع کرنے کے بجائے، دو تین خطوط کے ایک مکسچر کی صُورت شایع کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں، تو آپ کو گمان گزرتا ہے کہ کچھ خطوط ضائع کردیئےگئےہیں، لیکن حقیقتاً ایسا بالکل نہیں ہے۔ جب کہ ایسا کرنا ضروری یوں ہوتا ہے کہ آپ کی ہر اِک تحریر، دوسری کی نقل ہی معلوم ہوتی ہے، جیسے آپ نے کوئی سانچا تیار کر رکھا ہے اور بس اُس سے تحریریں ڈھال ڈھال کے ہمیں پوسٹ کیے جاتے ہیں۔

پوری زندگی کی داستان

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں آج ’’مدینہ منوّرہ‘‘ سلسلے کی12 ویں قسط پڑھی۔ جناب محمود میاں نجمی کااس قدر اہم معلومات فراہم کرنےکابےحد شکریہ۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے پاکستان کے تمام حُکم رانوں کے بیانیے بہت ہی خُوب صُورت انداز میں بیان کیے۔ 29میڈلز حاصل کرنے والے ڈاکٹر حافظ محمّد ولید ملک کا ’’انٹرویو‘‘ بہت اچھا تھا۔ گلے میں ہار کی طرح ڈالےہوئے میڈلز والی تصویر بہت پسند آئی۔ ’’یاداشتیں‘‘ میں ڈاکٹر عقیل عباس جعفری کا ضیاء محی الدین پر مضمون شان دار تھا۔ ایک مضمون میں گویا پوری زندگی کی داستان بیان کر کے رکھ دی۔ بہت عرصے بعد شفق رفیع کی ایک جان دار رپورٹ بھی پڑھنے کو ملی، جو یقیناً کافی محنت سےتیار کی گئی ہے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں دہلی نامے کا جواب نہیں۔ ڈاکٹر رانجھا بہت ہی شان دار انداز میں سفرنامہ رقم کررہے ہیں اور ہم بھی جیسے اُن کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ تو ہر بار ہی پیارا ہوتا ہے۔ مزے دار پکوانوں کا شکریہ۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں محمود علی کی تحریر ’’بھائی جان‘‘ بہت اچھی لگی۔ ہمارے بھی ایک مرحوم بھائی جان تھے، اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے۔ (رونق افروز برقی، دستگیرکالونی، کراچی)

اپنی تحریر کے درشن

ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمہ ہدایت‘‘ کے متبرّک صفحات شامل تھے۔ طالبان حکومت کو چاہیےکہ عالمی معاہدوں کی پاس داری کرے، کیوں کہ اب پوری دنیا کی نظر افغانستان پر ہے۔ بڑےبڑے ممالک (سُپرپاورز) میں بھی بریک ڈائون ہوسکتا ہے، ہم تو ہیں ہی ایک غیر ترقی یافتہ قوم، چلیں، پھر بھی جلد ہی بریک ڈائون پر قابو پالیا گیا تھا لیکن اس دوران جس قسم کی افواہوں نے جنم لیا، خدا کی پناہ ہے۔ بے شک، تمام اسٹیک ہولڈرز کو پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر پر قابو پانا ہوگا۔ سب کو مل جُل کر ہی اس ناسور کے خاتمے میں اپنا اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ عالمی بحری مشق امن2023ء کا پاکستان میں انعقاد پاکستان کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے، ویل ڈَن پاکستان۔ 

ایڈمنسٹریٹر، میٹرو پولیٹن کارپوریشن، کوئٹہ جبّار بلوچ اور معروف کالم نگار، میڈیا پرسن، دانش وَر حمّاد غنونوی کے انٹرویوز شان دار تھے۔ آپ کا اسٹائل رائٹ اَپ لکھنا، آپ کے لیے نہ سہی، ہم سب کے لیے تو کافی خوش گوار تجربہ ہے۔ ہم تو ایک عرصے سے آپ سے دست بدستہ التماس گزار تھے کہ ’’خدارا! ہفتے میں ایک آدھ بار ہی سہی، اپنی تحریر کے درشن کروا دیا کریں۔‘‘ مگر آپ ہر بار ٹال جاتی تھیں۔ بہرحال، اب مسلسل آپ کی تحریر پڑھنے کو مل رہی ہے، تو جیسے جی میں جان آگئی ہے،ہمیں تو یہ تبدیلی بہت ہی پسند آئی۔ ’۔ ’’اُترن بھی میسّر نہیں‘‘ بہترین معلوماتی ’’فیچر‘‘ تھا۔ ’’دہلی نامہ‘‘ کی اقساط 9-10 بھی اچھی لگیں۔ یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ مِرگی اب ایک قابل علاج مرض ہے۔ ’’آہوں، سسکیوں میں ڈوبے ترکیہ اور شام‘‘ پڑھ کر تو دل جیسے پَھٹنے لگا۔ اللہ پاک کُل اُمتِ مسلمہ کی حفاظت فرمائے، ہر طرح کی آفتوں سے محفوظ و مامون رکھے۔ (آمین) (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: اب کررہے ہیں ناں آپ، ہر ہفتے تحریر کےدرشن…؟ تو کرتے رہیے۔ دیکھتے ہیں، دونوں جانب کی ہمّت کب تک برقرار رہتی ہے۔

         فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

اُمید ہے، خیریت سے ہوگی۔ 19 فروری کا سنڈے میگزین سامنے ہے۔ سرورق پر آہوں، سِسکیوں میں ڈوبے تُرکیہ، شام کی ہیڈنگ دیکھ کر ہی دل خُون کے آنسو رو پڑا، اللہ خیر کرے۔ رب العزت ہمیں ہر آفت سے محفوظ رکھے۔ اے کاش! مسلمانوں کے اعمال اللہ، رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ہوجائیں، تو ان شاء اللہ تعالیٰ پھر ہم پرکوئی آفت نہیں آئے گی، رہی آزمائش تو آزمائشیں تو انبیاء پر بھی آتی تھیں، مگر یہ سوشل میڈیا جو گُل کِھلا رہا ہے، وہ گویا قیامت ہی کے آثار ہیں۔ کلمہ گو اب بھی سُدھر جائیں، تو اللہ کا کرم ضرر ہوگا۔ مگر عموماً لوگ صرف باتیں ہی بناتے ہیں، عمل کرتے موت پڑتی ہے۔ آپ کی ماڈل کو دیکھا، جو ہاتھ میں دوپٹا لیے بیٹھی تھی۔ اب کون کہے، بی بی!دوپٹا سر، سَتر کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ پیروں میں ڈالنے، ہاتھوں پر لپیٹنے کے لیے۔ ’’مدینہ منوّرہ‘‘ کے احوال نے تو دل منوّر کردیا۔ 

محمود میاں نجمی جو معتبر الفاظ رقم کرتے ہیں، سونے میں تولو، تو سونا کم پڑے۔ دُعا ہے اللہ تعالیٰ ان کےقلم کی طاقت کو ذوالفقار کی طاقت عطا کرے۔ منور مرزا کیا اَن ہونی بات کہہ رہے ہیں کہ عوام سُدھریں گے، تو مُلک سدھرے گا۔ بھیا! یہ خواب ہے اور خواب، خواب ہی ہوتا ہے، حقیقت سے اُس کا کیا واسطہ، نہ اچھی تعلیم، نہ بہتر روزگار، نہ بہترین ماحول، عوام سُدھریں تو کیسے…؟ دانش وَر، کالم نگار، حمّاد غزنوی کی سچّی گفتگو دل کو بےحد بھائی اور حمّاد غزنوی کی غزل بھی خُوب ہی تھی، ماشاءاللہ۔ ’’ماں بولی، اب بولے کوئی کوئی…‘‘ میری چھے سالہ نواسی نے اِس سُرخی کو یوں پڑھا کہ ’’ماں بولی…اب بولے کوئی کوئی (یعنی ماں بولے تو باقی سب چُپ رہیں) کبھی کبھی بچّے بھی کیسی گہری بات کرجاتےہیں۔ 

ویسے منور راجپوت کا مضمون ہم نے بہت سنبھال کے اُن اخبارات و جرائد کے ساتھ رکھ لیاہے،جو40برس سے ہمارے پاس محفوظ ہیں اور بلاشبہ،سب اَن مول ہیں۔ رائو محمّد شاہد نے (نواب شاہ سے آکر، جو ہماری جائے پیدائش ہے) ٹھیک ہی کہا کہ ملازمت پیشہ طبقہ ذہنی و نفسیاتی تشدّد کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ سماج نے انسان کو انصاف دیا ہی کہاں ہے۔ سو، ہمیں بھی بس یہی کہنا ہے ؎ حجابِ گردشِ اوقات بڑھنے والا ہے…وہاں چراغ جلائو، جہاں اُجالا ہے۔ ’’ناقابل فراموش‘‘ میں ’’گدڑی کے لعل‘‘ کے ذریعے ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید نے بڑی سبک رفتاری سے اپنے تمام دوستوں، رشتے داروں کا تعارف کروا دیا۔ گویا سنڈے میگزین پڑھنے والوں کو باور کروانا چاہ رہے ہوں کہ ہم کوئی ایسے ویسے شخص نہیں، ایک بہترین خاندان کے فرد ہیں۔ ہاہاہا… اختر سعیدی کا تبصرہ کرنے کا انداز بہت ہی خُوب ہے۔ شاعر علی شاعر کی حمدیہ و نعتیہ شاعری کا فکری و فنی تجزیہ شان دار تھا۔ 

شاہد عمران نے ایم فِل اُردو کی سند لی، مبارک ہو۔ (شاعر علی شاعر، تم کو بہت بہت مبارک ہو، ہم نے اعجاز رحمانی کے انتقال کے بعد سے مشاعروں میں شرکت چھوڑ دی، ورنہ تم کو استاد علامہ اعجاز رحمانی کے گھر پر مبارک باد دیتے) اور لو جی، اب آگئے ہم ’’ہائیڈ پارک‘‘ میں۔ یہ کیا…؟ ہمارے خلوص کو چاپلوسی کا خطاب ملا۔ لو بھئی، اب ہماری ٹرولنگ کا وقت ہوا چاہتا ہے، واہ۔ ویسے ہم اور جنگ1984 ء سےساتھ ساتھ ہیں، تو اب اگر ہمارا ’’لاڈ‘‘ غلط ہے، تو لکھاریوں کو اجازت ہے کہ اِس ’’جُرم محبّت‘‘ کی جوچاہیں، سزا تجویز کردیں۔ (شبینہ گُل انصاری، حجامہ تھراپسٹ، نارتھ کراچی، کراچی)

ج:جی واقعی، آج کل کے بچّے، اکثر کوئی بہت گہری، سچّی بات بڑی آسانی اور سادگی سے کر جاتے ہیں، مگر اِس خط میں تو کسی ’’بڑے‘‘ نے بھی کئی گہری، سچّی باتیں کہہ ڈالی ہیں۔

گوشہ برقی خطوط

* گونا گوں مصروفات کے سبب ایک طویل عرصے سے آپ کے ساتھ نصف ملاقات کا سلسلہ معطّل ہے، لیکن جریدے کا مطالعہ اُسی ذوق و شوق سے جاری ہے۔ بہرحال، مَیں نے ’’ماں‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے۔ قابلِ اشاعت ہو تو شائع کرکے شکریے کا موقع ضرور دیجیے گا۔ (فرناز یاسمین، شاہ راہِ ریشم)

ج: جی، قابلِ اشاعت ہوئی تو آپ کو یہ موقع ضرور دیا جائے گا۔

* ’’دہلی نامہ‘‘ میرا مَن پسند سلسلہ ہے۔ ہر ہفتے انتظار رہتا ہے۔ ویسے میں سنڈے میگزین کے ہر دل عزیز سلسلے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا بھی بہت بڑا فین ہوں۔ آپ کے جوابات پڑھ کر بہت ہی لُطف آتا ہے۔ جریدے میں طنز و مزاح کی کمی بالکل محسوس نہیں ہوتی۔ آپ پیار پیار سے بعض اوقات ایسی بات کہہ جاتی ہیں کہ ہمارا تو منہ کُھلا کا کُھلا رہ جاتا ہے۔ ویسے ایک بات تو بتائیں یہ ’’اوکھلی میں سر دیا تو دھمکوں(موسلوں) سے کیا ڈر‘‘ محاورے، میں اوکھلی کون ہے اور موسلے کون؟ (فیصل آباد)

ج:سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ نے ای میل کے ساتھ اپنا نام کیوں نہیں لکھا؟ اور بھائی، محاورے، ضرب الامثال جس واقعے یا معاملے کے ضمن میں Quote (نقل) کیے جاتے ہیں، تو مُراد اسی معاملے یا واقعے میں مذکورہ افراد ہوتے ہیں، نہ کہ اُنہیں کسی کے ساتھ مخصوص کردیا جائے۔ اب اگر ہم کسی غیر ضروری تنقیدی یا طویل خط کے جواب میں یہ محاورہ نقل کرتے ہیں، تو اِس سے ہماری مُراد یہ ہوتی ہے کہ چوں کہ ہم نے اپنی مرضی و منشا سے ’’آپ کے خطوط‘‘ کا یہ صفحہ شروع کیا، پھر خُود لوگوں کو آفر دی کہ بلا جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر لکھیں، تو اب اگر آپ لوگوں کے طول طویل یا بے جا تنقیدی خطوط آرہے ہیں، تو یہ خُود ہمارا ہی قصور ہے۔ مطلب ہم نے یہ خطرہ جان بوجھ کر مول لیا ہے، اپنے پاؤں پر یہ کلہاڑی خُود ماری ہے۔ کیا سمجھے؟؟

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk