• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی جیتے جاگتے باشعور انسان کو وقت سے ہر لمحہ سیکھنا چاہئے اسی کا نام ارتقاء ہے بصورت دیگر جمود ہے۔ کوئی بھی شخص خواہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہو جب خود کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے تو اس کا شعوری سفر اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ درویش کی زندگی کا اچھا خاصا حصہ مولوی کی حیثیت سے گزرا، اسی اپروچ کے زیر اثر اس نے اوائل عمر میں مولانا مودودی کی تقریباً تمام کتب پڑھ ڈالی تھیں، مولاناکے بعد ان کے جانشین اور ان کی جماعت کے امیر میاں طفیل محمد سے بڑی قربت رہی۔ ان کی جگہ قاضی حسین احمد امیر بنائے گئے تو ان کی یادیں اور خط و کتابت ایک امانت اور اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میاں طفیل محمد سے تمام تر عقیدت مندی کے باوجود کئی معاملات پر اختلاف رائے بھی ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر درویش افغان جہادی رہنما گلبدین حکمت یار کو افغانستان میں آگ لگانے اور خون بہانے کا بڑا ذمہ دار سمجھتا تھا جبکہ میاں صاحب انہیں ایک مخلص اسلامی لیڈر یا جہادی رہنما خیال کرتے تھے۔ سب کو معلوم ہے کہ میاں صاحب ضیاء الحق کے زبردست حامی تھے اور انہیں پاکستان کے محافظ کی طرح دیکھتے تھے حتیٰ کہ البدر اور الشمس کی سرگرمیوں کو بھی اسلام اور پاکستان سے محبت کا باعث خیال کرتے تھے۔ فوجی آمروں بشمول ایوب، یحییٰ اور ضیاء کی جماعت اسلامی نے مودودی صاحب اور میاں صاحب کے ادوار میں اس نوع کی مخالفت کبھی نہیں کی جس کی کسی بھی جمہوری الذہن شخص سے امید یا توقع کی جا سکتی ہے، اس کے برعکس جماعت کا عمومی رویہ ان ڈکٹیٹروں کی حمایت کا رہا۔ میاں صاحب سےایک مرتبہ اس پر اچھی خاصی جرح ہوئی تو ان کا یہی اصرار تھا کہ ہمارا تعاون اس قرآنی آیت کی موافقت میں ہے کہ’’و تعاون علی البر و التقویٰ والا تعاون علی الاثمہ والعدوان‘‘ یہ کہ ہم نیکی اور اچھائی میں تو تعاون کرتے ہیں لیکن غلط باتوں پر مخالفت کرتے ہیں۔ درویش کو اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے مصر ی صدر جمال عبدالناصر کے اخوان المسلمون کے ساتھ برے سلوک کو بطور تمثیل بیان فرمایا۔ ہم نے شروع میں ایوب خان کی مخالفت کی تھی جبکہ اخوان نے ابتداً سید قطب کی قیادت میں ناصر سے تعاون کیا تھا مگر پھر اختلافات اتنے شدید ہوتے چلے گئے کہ صدر ناصر نے اخوان کی طاقت کو بدترین مظالم سے کچل کر رکھ دیا۔ اس سے ہم نے یہ سبق سیکھا کہ ہم اپنے حکمرانوں سے چاہے وہ فوجی ڈکٹیٹر ہی کیوں نہ ہوں اختلاف تو کریں گے، جہاں وہ کوئی غلط قدم اٹھائیں گے مگر اس مخالفت کو دشمنی کی حد تک نہیں بڑھائیں گے۔ بلاشبہ آج کے بدلے ہوئے حالات میں ہم میاں صاحب کے اس زاویہ نگاہ یا پالیسی پر کہیں زیادہ تنقید کر سکتے ہیں اور فوجی آمروں سے ان کا نرم رویہ آج ہمیں ناقابل دفاع محسوس ہوتا ہے لیکن اس سب کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر آپ 9مئی جیسے ’’راست اقدام‘‘ پر آ جائیں تو سمجھ لیں کہ آپ خود کش دھماکہ کرنے جا رہے ہیں جس میں وہ ہوں نہ ہوں آپ ضرور بھسم ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کی ہر دو باشعور سیاسی قیادتوں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے اپنے اوپر ہونے والی ان گنت زیادتیوں کے باوجود مخالفت کو ایک حد تک پروقار طور پر رکھا ہے کبھی بھی ریڈ لائن کراس نہیں کی، بالخصوص نواز شریف نے ہمیشہ حکمت و تدبر سے برے حالات کو بہتری میں بدل کر سمجھداری سے راہ نکالی یا ایک طرح سے پسپائی اختیار کر لی۔ ہمارے جناح ثالث چونکہ سیاستدان نہیں بلکہ درویش کی رائے میں سیاسی اناڑی ہیں، جنہیں کچھ ادراک نہیں کہ وہ براہ راست فوج اور اس کی تنصیبات یا جی ایچ کیو پر حملہ آور ہو کر کتنی بڑی حماقت کر چکے ہیں اور پھر بھی اس کےنتائج و عواقب کا احساس کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ نواز شریف اور دیگر سیاستدانوں کے خلاف جس نوع کی زبان استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں، غلط فہمی سے سمجھ بیٹھے کہ ’’میں اتنا پاپولر لیڈر ہوں کہ مجھے کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا؟ یہ انکی بھول ہے، دوسری بات یہ کہ ہمارے جمہوری لوگوں کو سمجھ ہونی چاہئے کہ اس شخص کا پورا بیانیہ یا ایجنڈا نہ تو آئینی و جمہوری ہے اور نہ اخلاقی و اصولی، ہوس اقتدار میں یہ شخص ملک کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتا ہے جو ماقبل 47 اور 71 میں یہاں ہو چکا ہے مگر اب کے نہیں ہو گا۔ اس لئے درویش کا مخلصانہ مشورہ ہے کہ قومی سیاست چو نکہ جناح ثالث کے بس میں نہیں اس لئے وہ جو تباہی ڈھا چکے ہیں اسی پر اکتفا کرتے ہوئے اب انگلینڈ اپنے بال بچوں کے پاس چلے جائیں وہاں ان کی تعلیم و تربیت کے ساتھ خود بھی سکون سے رہیں اور قوم کو بھی اس دلدل سے نکلنے دیں۔

تازہ ترین