سلگتے ہوئے سیاسی و معاشی ماحول میں شدت پسندی، شر انگیزی، بد امنی، دہشت گردی اور خودکش حملوں کے رونما ہونے والے واقعات انتہائی تکلیف دہ اور قابل مذمت ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کے قافلوں ، چیک پوسٹوں، مساجد پر حملوں کے بعد اب تازہ ترین امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے قافلے پر خودکش حملہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ سیاسی شخصیات بھی دہشتگردوں کے ہدف پر ہیں۔ اس حملہ میں امیر جماعت بال بال بچ گئے۔ خودکش حملہ آور مارا گیا۔ 7 کارکن زخمی ہوئے اور چند گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ امیر جماعت کو ژوب میں جلسہ سے خطاب کرنا تھا انہوں نے کہا زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے خوف ہمارے خون میں نہیں۔ جلسہ ہوگا اور انہوں نے جلسے سے خطاب بھی کیا۔ 2014میں کوئٹہ میں جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما مولانا فضل الرحمان پر بھی ایک خودکش حملہ ہوا تھا جب وہ مولانا مفتی محمود کانفرنس سے خطاب کرنے کے بعد واپس جا رہے تھے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق پر خودکش حملہ ایک ایسی صورت حال میں ہوا ہے جب حکومت اور ادارے ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک میں عام انتخابات سے قبل مثالی طور پر مطلوبہ ماحول فراہم کیا جاسکے۔ امیر جماعت کے قافلے پر خودکش حملہ کی صدر مملکت ، وزیر اعظم اور تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنمائوں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے ۔ کسی بھی ملک میں دہشت گردی معاشرے پر دیرپا اثرات مرتب کرتی ہے جس میں جانی ، مالی ، معاشی، اقتصادی اور تعلیمی نقصان شامل ہے۔ پاکستان مخالف قوتیں شرپسندی پیدا کرکے ملک کو کھوکھلا کرنے کی مذموم منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہیں جسے سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑا ہوکر اپنی اندرونی نفرتیں، تنازعات، اختلافات، تضادات کو ختم کرکے ہی ناکام بنایاجاسکتا ہے۔