• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرکزی بینکوں کی شرح سود میں اضافے سے امریکہ اور یورپ میں بینکوں کے دیوالیہ ہونے میں اضافہ ہورہا ہے۔ 10مارچ کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ایک بڑے بینک سلیکون ویلی بینک (SVB)نے ڈیفالٹ کا اعلان کیا جو 2008 کے بعد امریکی بینکنگ کی تاریخ میں سب سے بڑا مالی بحران ہے۔ اکائونٹ ہولڈرز کو نقصانات سے بچانے کیلئے امریکہ کی فیڈرل ڈپازٹ انشورنس کارپوریشن (FDIC) جو ڈپازٹ ہولڈرز کو انشورنس فراہم کرتی ہے، نے سلیکون ویلی بینک کا کنٹرول سنبھال لیا۔ ایک ہفتے بعد امریکہ کے دوسرے Signature بینک نے کھاتے داروں کیلئے اپنے دروازے بند کردیئے اور اس کے فوراً ہی بعد امریکہ کے تیسرے بینک فرسٹ ری پبلک بینک (FRB) کو بھی مالی مشکلات کے باعث امریکی بینکنگ بحران کا حصہ بننا پڑا جس کے بعد امریکہ کے مزید دو بینک لاس اینجلس کے پیک ویسٹ بینک اور ایریزونا کے ویسٹرن الائنس بینک کے شیئرز کی قیمتوں میں 50فیصد سے زائد کمی کے بعد ریگولیٹرز نے دونوں بینکوں کے شیئرز کا لین دین بند کردیا۔

امریکہ میں رواں سال دیوالیہ ہونے والا چوتھا بینک فرسٹ ریپبلک بینک تھا۔ اس سے قبل سلور گیٹ کیپٹل، سلیکون ویلی بینک اور Signature بینک دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ IMF کی ڈائریکٹر جولی کوزاک کے مطابق امریکہ کے قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا ہے اور اسے دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے اپنے قرضوں کی حد بڑھانا یا اسے معطل کرنا پڑے گا۔ سوئٹزر لینڈ ،جو دنیا میں محفوظ بینکنگ اور کالا دھن رکھنے کا سب سے بڑا مرکز ہے، کو بھی تاریخ کے سب سے بڑے دیوالئے کا سامنا کرنا پڑا۔ حال ہی میں سوئٹزرلینڈ کے دوسرے بڑے کریڈٹ سوئس بینک (CSB) کو مالی نقصانات کے باعث سوئٹزر لینڈ کے سب سے بڑے یونین بینک آف سوئٹزر لینڈ (UBS) نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اس عالمی بینکنگ بحران میں امریکی بینکوں کے شیئرز وال اسٹریٹ پر20 فیصد اور یورپی بینکوں کے شیئرز میں 13فیصد کمی آئی جبکہ کریڈٹ سوئس بینک کے شیئرز 30فیصد کریش ہوئے جس سے دنیا کے بینکنگ نظام میں ایک بھونچال آگیا۔

امریکہ کے دیوالیہ ہونے والے 3 میں سے دو بینکوں SVB اور Signature بینک کی ایک چیز مشترک تھی کہ وہ دونوں ٹیکنالوجی کے شعبے میں ضرورت سے زیادہ فنانسنگ کررہے تھے جبکہ تیسرا فرسٹ ری پبلک بینک شیئر کریش ہونے کی وجہ سے بحران کا شکار ہوا۔ دونوں امریکی بینکوں کو 400ارب ڈالرز کی مالی سپورٹ اور گارنٹیاں فراہم کی گئی ہیں اور امریکہ کے مرکزی فیڈرل ریزرو بینک (FRB) نے بھی 140ارب ڈالرز کی سپورٹ کا اعلان کیا ہے جبکہ سوئٹزر لینڈ کے سینٹرل بینک نے سوئس کریڈٹ بینک کو اکائونٹ ہولڈرز اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال رکھنے کیلئے 54ارب ڈالرز کے ایمرجنسی لون دیئے ہیں۔اس کے علاوہ سوئٹزر لینڈ کے سب سے بڑے یونین بینک آف سوئٹزر لینڈ (UBS) نے سوئس کریڈٹ بینک (SCB) کے شیئرز بھی پرکشش قیمت پر خرید کر بینک کا جبری کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ قارئین! امریکی فیڈرل ڈپازٹ انشورنس (FDIC) امریکہ میں 250000 امریکی ڈالرز تک بینک اکائونٹ ہولڈرز کو گارنٹی دیتی ہے جبکہ سوئٹزر لینڈ میں 100000سوئس فرینک (108000 امریکی ڈالرز) تک اکائونٹ ہولڈرز کو انشورنس گارنٹی فراہم کرتی ہے۔ میں نے اپنے جنوری کے کالم میں روس یوکرین جنگ کے باعث افراط زر سے نمٹنے کیلئے عالمی بینکوں کے شرح سود میں ریکارڈ اضافے کی وجہ سے 2023میں امریکہ، یورپ، چین اور برطانیہ میں اقتصادی بحران کی پیش گوئی کی تھی۔ آج امریکہ میں افراط زر بڑھ کر 8.4فیصد تک ہوگیا ہے جو گزشتہ 40 سال میں بلند ترین شرح ہے۔ برطانیہ میں بھی بینک آف انگلینڈ اور یورپین سینٹرل بینک نے بھی مہنگائی روکنے کیلئے شرح سود بڑھائی ہے جس سے ان ممالک میں گروتھ میں کمی اور بیروزگاری، غربت اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک اقتصادی بحران کی لپیٹ میں ہیں۔ شرح سود میں مسلسل اضافے سے عالمی بینکنگ بحران کا شکار ہے اور امریکہ اور یورپ میں بڑے بینک یکے بعد دیگرے دیوالیہ ہورہے ہیں جو عالمی معاشی بحران کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔

بینکوں کی شرح سود میں اضافے سے انٹرنیشنل بانڈز مارکیٹ پر بھی منفی اثر پڑا ہے اور پاکستان سمیت مختلف ممالک کے حکومتی بانڈز آدھی سے بھی کم قیمت پر آگئے ہیں۔ مرکزی بینکوں کے شرح سود میں جب اضافہ ہوتا ہے تو بانڈز کی قیمتوں میں کمی آتی ہے۔ ان حالات کی وجہ سے عالمی بانڈز مارکیٹ میں شدید مندی کا رجحان ہے اور بینکوں کو اپنی لیکوڈیٹی قائم رکھنے کیلئے انہیں قبل از ادائیگی فروخت کرنا پڑرہا ہے ۔ پاکستان میں بھی افراط زر یعنی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک نے اپنے پالیسی ریٹ میں ریکارڈ اضافہ کرکے 21فیصد تک کر دیا ہے جس سے بینکوں کی شرح سود 23سے24 فیصد تک پہنچ گئی ہے جس میں مزید اضافے کی توقع ہے لیکن اس کے باوجود افراط زر یعنی مہنگائی کم ہونے کے بجائے 50سال کی بلند ترین شرح 47 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہماری صنعت اور بزنس 24سے 25فیصد شرح سود اور مالی لاگت برداشت کرسکتی ہے یا مستقبل میں ڈیفالٹ اُن کا بھی مقدر ہوگا۔

تازہ ترین