• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے والد شہزاد حسین، ایک شفیق باپ ہونے کے ساتھ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ اُن کا تخلص کوثر سلطان پوری تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے طے کردہ اصولوں پر سختی سے کاربند رہے۔ وقت کے بے حد پابند اور پنج وقتہ نمازی تھے۔ انتہائی مختصر گفتگو کرتے، جو علیک سلیک یا مختصر حال احوال تک محدود ہوتی۔ گفتگو میں حفظِ مراتب، رواداری، تحمّل جیسے اوصاف نمایاں اور طبیعت میں صلح جُوئی تھی، مجھے یاد نہیں کہ کبھی کسی سے اختلاف یا کوئی بدمزگی ہوئی ہو۔ شدید اختلاف میں بھی احترام ملحوظِ خاطر رکھتے۔ اگر کبھی کسی کی ناگوار باتوں پر ناراض ہوتے، تو انتہائی غصّے کے عالم میں بھی صرف اتنا ہی کہتے، ’’چھوڑیں میاں! کوئی اور بات کریں۔ آپ پر اس وقت منتشر الخیالی غالب ہے۔‘‘

ہمارے گھر میں اس بات کا کوئی تصوّر نہ تھا کہ کوئی دروازے پر دستک دے اور آپ کسی سے کہلوادیں کہ گھر پر نہیں ہیں۔ اگر ہم سے کوئی ملنے آجاتا اور دروازے پر والد صاحب سے ملاقات ہوجاتی، تو اُن کا بس نہ چلتا کہ چند سیکنڈ میں ہمیں خود اُس کے سامنے لے جائیں۔ مَیں لڑکپن سے نکل کر نوجوانی کی حدود میں داخل ہوا، تو مجھ سے اُن کا رویّہ مزید ناصحانہ ہوگیا۔ مجھ میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے دنیا جہان کی باتیں کرتے، اونچ نیچ سمجھاتے۔ کوئی مسئلہ ہوتا، تو اُس پر نہ صرف میری رائے لیتے، بلکہ گھریلو امور سے متعلق فیصلہ سازی میں بھی شریک کرتے۔ اُس وقت الجھن سی ہوتی، لیکن اب سوچتا ہوں کہ وہ لمحات ہی تو تربیت اور رموزِ زندگی سکھانے کے تھے۔ ایک دن کہنے لگے، ’’زندگی میں اگر عزّت و سکون سے رہنا ہے، تو دو باتیں یاد رکھنا، اوّل، خود سے کبھی جھوٹ نہ بولنا۔ دوم، خود پر رحم نہ کھانا۔ اگر ان باتوں کے برخلاف عمل کروگے، تو شخصیت متزلزل، ارادے کم زور، راستے بے سمت، منزل بے نشاں اور بات بے وزن رہے گی۔‘‘

بلند قامت، مناسب جسامت کے حامل میرے والد کی زندگی ہر لحاظ سے انتہائی سادہ تھی۔ اُن میں حسد، کینہ اور بغض و عداوت کا دُور دُور تک نام و نشان نہ تھا۔ ہمیشہ نمود و نمائش اور بے جا خواہشات سے دُور رہے، اس لیے کبھی اُنھیں مضطرب نہ دیکھا، ہمیشہ مطمئن ہی پایا۔ دفتر جانے کے لیے گنی چُنی پتلونیں اور قمیصیں تھیں۔ گھر میں ہمیشہ ململ کے سفید کُرتے اور چوڑے کاٹ کے پاجامے میں ملبوس رہتے۔ ہاتھ میں رومال کا ہونا لازمی تھا۔ سردیاں زیادہ پڑتیں، تو ہاف آستین کا سوئیٹر پہن لیتے۔ فجر کی نماز مسجد میں پڑھتے۔ گھر آکر سورج نکلنے کے بعد لیٹ جاتے، پھر11بجے روزی روزگار کےلیے گھر سے نکل جاتے۔ وہ مختلف کمپنیز میں بطور اکاؤنٹنٹ جزو وقتی کام کرتے تھے۔

کہیں روزانہ ایک گھنٹہ، تو کہیں ہفتے میں دو مرتبہ جایا کرتے۔ کم پیسوں میں بھی گھر کی گاڑی سکون سے چلتی رہتی۔ والد صاحب سخت محنتی ہونے کے ساتھ قناعت کی دولت سے بھی مالا مال تھے۔ اخراجات بڑھتے تو آمدنی بھی بڑھ جاتی۔ کبھی روپے پیسے کے پیچھے نہیں بھاگے۔ کہتے تھے ’’حلال کمائی کم بھی ہو تو اس میں بڑی برکت ہوتی ہے۔‘‘ مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے، ’’امیر شخص صاحبِ علم و معرفت اور بہادر معاف کردینے والا، متحمّل ہوتا ہے۔‘‘ والد صاحب کا پڑھایا ہوا یہ سبق آج بھی ہمیں یاد ہے۔ گو کہ دنیاوی تقاضے بڑی حد تک تبدیل ہوچکے ہیں، مگر ہم سب بہن بھائی اسے کبھی نہیں بھولتے۔ ماہِ رمضان آتا تو اُن کے معمولات تبدیل ہوجاتے۔ سہ پہر 3 سے 4بجے کے دوران گھر آجاتے۔ 

جس زمانے میں سگریٹ پیا کرتے تھے، اس وقت تو یہ تھا کہ ہم سب کوئی ایسا موقع نہ آنے دیتے کہ والد صاحب کی آواز میں غصّے کی تپش شامل ہو۔ برسوں بعد ایک دن اچانک سگریٹ چھوڑ دی اور پھر کبھی ہاتھ نہ لگایا۔ سگریٹ چھوڑی تو غصّہ بھی نہ جانے کہاں چلا گیا اور رمضان کے ایّام بھی عام دنوں کی طرح گزرنے لگے۔ وہ اگرچہ بہت کم خوراک تھے، لیکن دسترخوان انھیں بھرا چاہیے ہوتا۔ رمضان المبارک میں افطاری میں بھی یہی صورتِ حال ہوتی۔ چاٹ، چھولے، پکوڑے، بیسن لگے، تلے ہوئے پالک کے پتّے، چٹنی، نمکو اور سب سے خاص چیز مونگ پھلی تھی۔ کہتے تھے، مَیں مونگ پھلی بطور دوا کھاتا ہوں۔ والدہ مونگ پھلی کی تھیلی ایسے چُھپا کر رکھتیں، جیسے واقعی کوئی دوا ہو۔ 

مگر ہم بہن، بھائی دوا کی تھیلی دو تین دن سے زیادہ نہ چلنے دیتے۔ جس دن افطار میں مونگ پھلی نہ ہوتی، والدہ مجھے بازار کی طرف دوڑا دیا کرتیں اور جانے سے پہلے ہلکی آواز میں خوب سناتیں۔ والد صاحب کی نماز کے لیے ایک مخصوص سفید کپڑے کی ٹوپی تھی، جو ہفتے میں ایک بار ضرور دُھلتی اور رمضان میں تو اس کا خاص خیال رکھا جاتا۔ سحری بھی برائے نام کرتے، بھاری مرغن غذا بالکل بھی نہ لیتے۔ بس صرف ایک چپاتی اور رات کا سالن اُن کی سحری ہوتی۔ کھجلہ، پھینی لاتے ضرور، مگر کھاتے نہیں۔ 

والدہ کہتیں، ’’جب کھاتے نہیں، تو لاتے کیوں ہیں؟‘‘ فرماتے ’’اپنے بچّوں، خاص طور پر آپ کے بڑے صاحب زادے (راقم) کے لیے، جسے پھینی بہت پسند ہے۔‘‘ مگر اب کسی کو کیا پتا کہ میرے لیے اس پھینی میں کس کی یاد بسی ہے؟ ویسے تو آغازِ رمضان ہی سے انھیں ہمارے کپڑوں، جوتوں کی فکر لگ جاتی، لیکن20رمضان کے بعد اُس میں تیزی آجاتی۔ میٹرک کرنے کے بعد عید کے کپڑوں کے لیے پیسے میرے ہاتھوں میں تھمادیتے اور کہتے کہ اپنی مرضی سے کپڑے، جوتے خریدلو۔ مَیں پیسے لے کر بھی آنا کانی کرتا، لیکن ایک دن چلا ہی جاتا۔ میری خریدی گئی ایک ایک چیز بہت غور سے دیکھتے اور بہت خوش ہوتے۔

ہم بچپن سے جوانی کی حدود میں داخل ہوگئے، شادیاں ہوگئیں، بچّے پیدا ہوگئے، لیکن والد صاحب کا روٹین نہ بدلا۔ عید سے قبل ہم سب کو پیسے دیتے کہ اپنے کپڑے لے آئو۔ ہم کہتے، ’’اب آپ بھی تو کچھ لے لیں۔‘‘ مگر وہی حسبِ روایت چاند رات کو والدہ کے ساتھ جاکر سفید کرتا پاجاما، بنیان، رومال، عطر کی شیشی اور ایک معمولی سی سینڈل لے آتے۔ الغرض، بچپن سے جوانی تک کے رمضان کے وہ روزے، سحری، افطاری اور کپڑوں کی خریداری سب کچھ مجھے یاد ہے، جس میں بس والد صاحب ہی کی یاد بسی ہے۔ مجھے اب احساس ہوتا ہے کہ اولاد کے کپڑے دیکھ کر باپ کی خوشی کیا ہوتی ہے۔ میرے بچّے، ابھی میری اس خوشی کو سمجھ نہ پائیں گے، تاوقت یہ کہ وہ خود صاحبِ اولاد ہوجائیں۔ یہی کارخانۂ قدرت ہے۔ کل جس جگہ والد تھے، آج مَیں وہاں ہوں۔ زندگی کو آگے بڑھنا ہے۔ رمضان المبارک، عید، بقرعید اور دیگر تہوار آتے رہیں گے، مگر جو چلے گئے، اُن کی یاد بھی آتی رہے گی۔ (اظہر عزمی، کراچی)

سنڈے میگزین سے مزید