• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیّد احمد حسن شاہ، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ

75سال قبل کرّۂ ارض پر دو ریاستیں مذہبی بنیادوں پر قائم ہوئیں۔ اِسی بنا پر چند مبصّرین پاکستان اور اسرائیل کا مختلف پہلوؤں سے موازنہ کرتے رہتے ہیں۔ دونوں نے برطانوی پارلیمانی نظام اپنایا۔ عجیب اتفاق ہے کہ دونوں ممالک میں پارلیمان اور عدلیہ مسائل سے دوچار ہیں۔اسرائیل میں بنیامین اپنی اتحادی حکومت پر مبنی پارلیمان کے لیے زیادہ اختیارات کے خواہاں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پارلیمان، سپریم کورٹ کے فیصلے تبدیل کرنے اور عدالتی تقرّریوں میں زیادہ کردار ادا کرنے کے قابل ہو۔جہاں تک عدالتی تقرّریوں کا تعلق ہے، تو پاکستان یہ پُل پار کر چکا ہے۔ 

سپریم جوڈیشل کاؤنسل اور جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی صُورت اس معرکے کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔لیکن دونوں ممالک میں عدلیہ اور پارلیمان کی جاری جنگ میں پارلیمانی غلبے کی خواہش میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔ بنیامین’’ غیر منتخب ججوں‘‘ کے حد سے زیادہ اختیارات روکنے کے لیے قانون میں اصلاحات کو ضروری سمجھتے ہیں۔اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اپوزیشن اس کاوش کو چیک اینڈ بیلنس نظام کو’’تباہ‘‘ کرنے کی چال سمجھتی ہے۔وہ سیاسی طاقت کو ’’بدعنوان حُکم ران اتحاد‘‘ کے ہاتھ میں مرکوز کرنے کا بہانہ قرار دے چُکی ہے اور یہ کہ اگرچہ کچھ اقدامات اچھے ہو سکتے ہیں، مگر یہ وقت موزوں نہیں، کیوں کہ بنیامین کو خود بدعنوانی کے الزامات پر مقدمے کا سامنا ہے۔

اسرائیل کا صدر، جو ریاست کا ایک رسمی سربراہ ہے، نیک نیّتی سے پارلیمان اور عدلیہ کے تصادم کا مثبت حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہے، جب کہ ہمارے ہاں صدرِ مملکت بگڑتے حالات میں بامقصد اقدامات سے، جن سے وفاق مستحکم ہوتا، قاصر ہیں۔وہ مُلک و قوم کو متحد کرنے والی قوّت کے طور پر کام کرنے کی بجائے خانہ جنگی کو ہوا دینے والوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اُنہیں احساس ہی نہیں کہ مُلک تباہی کے دہانے پر ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے صدر، جو ہماری تاریخ میں سب سے زیادہ جانب دار صدر مانے جائیں گے، سیاسی کشیدگی کم کرنے کے لیے کوئی مثبت کردار ادا نہیں کر سکے، بلکہ اُنہوں نے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کرنے میں جو کردار ادا کیا، اُسی کے نتیجے میں سپریم کورٹ کا متنازع فیصلہ سامنے آیا۔ 

ایک ایسا فیصلہ، جو عدالتِ عظمیٰ کے سابقہ آئینی معیار سے بھی تجاوز کر گیا۔اسرائیل میں صدر ہرزوگ نے سیاسی تعطّل کے خاتمے کے لیے نہ صرف اصرار کیا، بلکہ غیر جانب دارانہ تجاویز بھی پیش کیں۔ ہمارے سربراہِ مملکت نے خود کو ایک جانب دار سیاسی ٹویٹر کی حیثیت سے پیش کیا۔ وہاں ہرزوگ تجویز کرتا ہے کہ پارلیمان کو سپریم کورٹ کے فیصلے اور ججز کو اہم قانون سازی کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے، بشرطیکہ پارلیمان اضافی اکثریت سے قانون سازی کرے۔ ان تجاویز کا خلاصہ یہ ہے کہ پارلیمان اور عدلیہ اپنی اپنی حدود و قیود کو تسلیم کریں۔ 

صدیوں کے آئینی نظریات مدّ ِ نظر رکھیں، آئینی الفاظ کی کھال نہ اُتاریں اور لوگوں کو بہتر سہولتیں، منصفانہ اور شفّاف نظامِ حکومت کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے قانونی نظام کی تبدیلی میں مدد کریں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں عوام کے منتخب نمائندوں کو اِس بات کا احساس ہے کہ اُنہوں نے نظامِ حکومت کو بطور ایک مقدّس امانت سنبھالنا ہے؟کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ سپریم کورٹ ایسے طریقوں سے گریز کرتی، جنھیں سیاست دان پنچایتی کہہ کر رد کر چُکے ہیں؟ کیا عدالت کا وزیرِ اعظم کی پارلیمان میں اکثریت پر تشویش کا اظہار لازم تھا؟ سب جانتے ہیں کہ جب دو گاڑیاں ٹکراتی ہیں، تو اصل نقصان سے نظر ہٹ جاتی ہے اور فریقین گالم گلوچ پر اُتر آتے ہیں، دست و گریباں ہو جاتے ہیں۔جب قانونی سوالات پیچیدہ ہو جائیں، تو منطقی دلائل پیش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حقائق اور قانون کا مطالعہ از سرِ نو کیا جائے۔

حقیقی مسئلہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا جلداز جلد انعقاد ہے۔ اشتعال انگیزی سے کچھ حاصل نہیں، بلکہ قومی زندگی کا نقصان ہو گا۔تاہم، دیکھنا یہ ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے بنیادی تقاضے کیا ہیں؟ اِس سوال کا جواب دینے سے پہلے چند بنیادی اصول مدّ ِ نظر رکھنے ضروری ہیں(۱) انتخابات کا تسلسل سے انعقاد جمہوریت کا جزو ہے۔ 1948ء کا انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ (آرٹیکل۲۱(۳)) اس بنیادی اصول کو مجسّم کرتا ہے۔ تاہم،1976ء کاسیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ (آرٹیکل 4) وضاحت کرتا ہے کہ عوامی ہنگامی صورتِ حال میں اگر قومی زندگی کو خطرہ لاحق ہوجائے، تو حالات کی مناسبت سے رُکن ممالک انتخابات کی قانونی میعاد میں توسیع کر سکتے ہیں۔(2) انتخابات کے انعقاد کی مقرّرہ مدّت کو قطعی قرار دینا آئین کی درست تشریح نہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی مقرّرہ مدّت کو قطعی نہیں، ترجیحی تصوّر کیا ہے۔ اِس ضمن میں نظریۂ ضرورت کا اطلاق صریحاً غلط ہے۔ کورونا وائرس نے کم از کم 69 ممالک میں انتخابات کو متاثر کیا۔19 ممالک میں انتخابات منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا، لیکن صرف9 ممالک انعقاد کر سکے۔(3) انتخابات کے التوا کے موضوع پر علمی اور عدالتی تحریر گو کم ہے، پر یہ احساس نمایاں ہے کہ تصویر کے دو رُخ ہیں۔ 

اگر انتخابات ملتوی ہونے سے حکومتی ادارے کم زور ہوسکتے ہیں، تو مثبت انتظام کی عدم موجودگی، جمہوری اقدار کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ موزوں وقت سے پہلے انتخانات پر اصرار کے معاملے میں مبصّرین کا خیال ہے کہ کہیں یہ اصرار اقتدار پر قبضے کی تاویل نہ ہو؟(5) غیر متعصبانہ مشاہدہ ہے کہ پاکستان کو ایسی صُورتِ حال کا سامنا نہیں کہ قدرتی یا غیر متوقّع آفات کی وجہ سے انتخابات ملتوی کیے جائیں۔ موجودہ ریاستی معاشی صُورتِ حال بھی انتخابات کو ملتوی کرنے کی مستند دلیل نہیں۔ سیکیوریٹی کے غیر معمولی حالات کی بنیاد بھی ابھی واضح نہیں ہے۔ 

دیگر ممالک کے واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ آئینی بحران، سیاسی تعطّل، عبوری فریم ورک، سالمیت کی عدم موجودگی، تیکنیکی امور اور لاجسٹک مسائل یا کسی امیدوار کی بے وقت موت جیسے واقعات کو انتخابات ملتوی کرنے کی جائز وجہ قرار دیا جاچکا ہے۔ ایسے کیسز کی مثال نیوزی لینڈ سے لے کر اہم یورپی، افریقی ممالک اور امریکا سے بھی ملتی ہے۔ سب سے مؤثر مثال شاید مقدونیہ کی ہے، جہاں اداروں کا غیر فعال ہو جانا انتخابات کے التوا کا باعث بنا۔ آج جو تعطّل پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان نظر آ رہا ہے، وہ ریاستی اداروں کے غیر فعال ہونے کی دلیل ہے۔(6) انتخابات کے التوا کی بحث سے ہر گز یہ تاثر نہ لیا جائے کہ عام انتخابات میں تاخیر کا معقول جواز فراہم کرنے کی ذمّے داری حکومتِ وقت کے علاوہ کسی اور کی ہے۔ پاکستان بَھر میں ایک ہی دن عام انتخابات کے انعقاد کے علاوہ، حکومتِ وقت کے پاس کوئی اور جواز موجود نہیں۔

مندرجہ بالا بنیادی اصولوں کی روشنی میں موجودہ تعطّل کے سیاق و سباق کا مختصر جائزہ لینا بھی کار آمد ہو گا۔(1) فروری 2021ء میں عسکری قیادت نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ جب گیلانی صاحب حُکم ران جماعت کے نام زد امیدوار عبدالحفیظ شیخ کے مقابلے میں کام یاب رہے، تو لگا کہ واقعی ایسا ہوگا۔ پی ٹی آئی کے ڈیڑھ درجن کے قریب ووٹ پلٹے، تو پی ٹی آئی کی پارلیمان میں اکثریت نہ ہونے کا دعویٰ شروع ہو گیا۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے بڑھتے شبہات کی نفی کر دی۔ لیکن جب گیلانی صاحب چیئرمین سینیٹ کے متنازع انتخاب میں سنجرانی صاحب سے ہار گئے، تو عسکری قیادت کی سیاست میں مداخلت کا پھر شور اٹھا۔ 

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ، جسٹس اطہر من اللہ نے پارلیمانی امور میں مداخلت سے انکار کیا، تو تشویش میں مزید اضافہ ہو گیا۔(2) اکتوبر 2021ء کی کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد حیران کُن تبدیلیاں عمل میں آئیں۔ پھر واقعات کا ناقابلِ فراموش سلسلہ دیکھنے کو ملا۔ پہلے تو وزیرِ اعظم عمران خان نے مزاحمت کی، لیکن آخر کار دسمبر2021ء میں مفاہمت اختیار کر لی۔ چند دن پہلے ہی انکشاف ہوا کہ زرداری صاحب نے شہباز شریف کو وزیرِ اعظم بننے کی پہلی پیش کش اُسی وقت کی تھی، کیوں کہ عسکری قیادت اُنہیں پسند کرتی تھی اور اُن کی پارٹی کے پاس اسمبلی میں نشستوں کی تعداد بھی زیادہ تھی، اِسی لیے اُنہی کو وزیرِ اعظم بننا جچتا تھا۔(3) وزیرِ اعظم عمران خان روس کے دورے سے واپس آئے، تو اُنہیں مارچ 2022ء میں عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ پی ٹی آئی نے جوابی حکمتِ عملی میں بذریعہ صدر علوی سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کیا، جس میں منحرف ارکان کی تاحیات نااہلی کا خدشہ تھا۔(4) اس موقعے پر پاکستان بار کاؤنسل بھی میدان میں آ گئی۔ اُس وقت کے اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دِلایا کہ ارکان کی ووٹنگ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی، مگر عدالت کو صدارتی ریفرنس میں سوالات کی وضاحت کرنی ہو گی۔(5) دریں اثنا، اسپیکر اسد قیصر عدم اعتماد کی قرارداد میں لیت و لعل سے کام لیتے رہے اور آخرکار غیر مُلکی سازش کی بنا پر قرار داد مسترد کر دی گئی۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی کی تحلیل کا مشورہ دیا اور صدر علوی نے نوٹی فیکیشن بھی جاری کردیا۔ عدالتِ عظمیٰ کے 12 فاضل ججز کے کہنے پر چیف جسٹس بندیال آرٹیکل ۱۸۴(۳) کی ہنگامی کارروائی عمل میں لائے، جس کے نتیجے میں پانچ رُکنی بینچ نے متفّقہ فیصلہ دیتے ہوئے عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ کا حکم جاری کیا اور یوں خان صاحب ’’سابق وزیرِ اعظم‘‘ ہو گئے۔(6) پھر پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی ہوئی، قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کا شور برپا ہوا۔ صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی متنازع رائے بھی سامنے آئی۔ بالآخر، پنجاب اور خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو گئیں۔(7) جب سے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے عُہدہ سنبھالا ہے، کئی غیر مناسب اقدامات حکومت سے منسوب ہوئے ہیں۔ افسوس کہ پنجاب کی نگران حکومت بھی اسی طرز پہ تنقید کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ ایک طرف ایسی بے سود کارروائی دیکھنے کو مل رہی ہے اور دوسری جانب، عدالتوں نے یکے بعد دیگرے یہ احساس دلایا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان واقعی ’’ Favourite child of the law‘‘ ہیں۔ جو گنجائش اور رعایت اُنھیں میسّر ہے، کوئی دوسری سیاسی شخصیت خواب میں بھی اس کا تقاضا نہیں کر سکتی۔

مذکورہ بالا تناظر میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد تب ہی ممکن ہے، جب درج ذیل معاملات کا ادراک ہو:٭عوام کو درپیش مسائل سے باخبر کیا جانا، پاکستان کے 80 فی صد عوام کو بذریعہ فون اور انٹرنیٹ میڈیا تک رسائی حاصل ہے۔ اِس لیے یہ باکس تو ٹِک کیا جا سکتا ہے۔ ہاں، متعلقہ اور غیر متعلقہ انفارمیشن میں تمیز اور حقیقی یا فیک نیوز کا تعیّن ووٹرز کو خود کرنا ہے۔٭ مُلک بَھر میں شرکت کی مساوات، اس کا مطلب یہ ہے کہ ووٹنگ بُوتھ تک رسائی یقینی بنائی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ مرد و خواتین حقِ رائے دہی استعمال کر سکیں۔ 

پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں اِس پہلو میں تشویش کا ازالہ کس قدر ہو چکا، اِس پر کوئی واضح معلومات منظرِ عام پر نہیں آئیں۔ اگر اس معاملے میں مثبت پیش رفت نہ ہوئی، تو پاکستان بَھر میں ایک ہی دن انتخابات ہونے کے مؤقف کی نفی ہو گی۔٭مقابلے میں مسابقت، پاکستان اِس حوالے سے بدنامِ زمانہ اسناد رکھتا ہے۔ افسوس کہ عدلیہ مخصوص امیدواروں کو برابری کی بنیاد فراہم نہیں کر سکی۔ مقنّنہ سے گٹھ جوڑ کے الزامات تو اب عدالتِ عظمیٰ کے تحریری فیصلے میں بھی عیاں ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ایف آئی اے، نیب، اے این ایف اور دیگر اداروں کے زیرِ نگرانی کیسز میں اضافہ نہ ہو۔ حُکمِ امتناعی کی آڑ میں الیکشن لڑنے اور پارلیمانی سیٹ پر قابض رہنے کی روایات کا خاتمہ بھی لازم ہے۔ 

انتخابی قوانین کی تعمیل کرتے ہوئے ہر سیاسی رہنما کو، بشمول عمران خان اور شریف برادران، انتخاب میں حصّہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ہاں، ایک فرد کی بیسیوں حلقوں سے الیکشن لڑنے کی منفی روایت کی حوصلہ شکنی ضروری ہے کہ یہ روش انتخابی عمل کی تحقیر کے مترادف ہے۔٭ایک شفّاف اور مؤثر انتخابی انتظامی نظام کی موجودگی، یہ سہولت ماسوائے الیکشن کمیشن کے کوئی اور ادارہ فراہم کرنے کا مجاز نہیں۔ الیکشن کمیشن کو نہ صرف وضع کردہ ادارہ جاتی قوانین اپنانے اور ان کی تعمیل یقینی بنانی ہے بلکہ کسی خوف وخطر اور جانب داری کے بغیر ان کا اطلاق یقینی بنانا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے نظامِ عدل میں عدلیہ کی صوابدیدی فیصلہ سازی نے ماحول آلودہ کیا ہے۔ پاکستان اور عوام دونوں اس منفی رجحان کے متحمّل نہیں ہو سکتے۔

مثبت پیش رفت کے لیے چند اہم عُہدے داران کو قربانی دینی ہو گی۔ تجویز ہے کہ(1) سب سے پہلے صدرِ پاکستان کو، جو فیڈریشن کے اتحاد کے نمائندے ہیں، فوراً مستعفی ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی کو اِس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ صدر کا ہر صُورت غیر جانب دار رہنا ضروری ہے اور صدر علوی اس معیار پر پورے نہیں اترتے۔(2) پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی قیادت کو ذاتی اختلافات سے بالا تر ہو کر نئے صدر کا انتخاب کرنا ہو گا اور اس کے لیے چھوٹے صوبوں یا گلگت بلتستان میں اہل شخصیات کی کمی نہیں۔ سابق ججز، جرنیلوں یا صحافیوں کو اس عہدے کے لیے نظرانداز کرنا ہو گا۔ پارٹی اہل کاروں اور کارکنان کو غیر جانب دار شخص کے حق میں پیچھے ہٹنا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں کیا، تو جلد ہی صدر کی تقرّری کے نام پر ایک نیا محاذ کُھل جائے گا۔(3) چیئرمین سینیٹ کی بجائے غیر جانب دار صدر کو پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے نمائندوں کو عام انتخابات کی تاریخ کے تعیّن میں ثالثی کرنی ہوگی۔ انتخابات کی تاریخ کا تعیّن الیکشن کمیشن کی عدم موجودگی میں معتبر نہیں ہے۔(4)سپریم کورٹ کو اپنے اندرونی معاملات میں مزید شفافیّت تب ہی حاصل ہوگی، جب عدالت کی اکثریت انتظامی امور کی مکمل پُشت پناہی کرتی دِکھائی دے گی۔ جج صاحبان میں تنازعات کے تاثر کو جڑ سے اُکھاڑنا ضروری ہے۔ 

یقیناً چیف جسٹس کو انتظامی امور میں فوقیت حاصل ہے،لیکن تمام اختیارات کا انصاف پسندانہ استعمال بھی اُن ہی کی ذمّے داری ہے۔ عدالتِ عظمیٰ میں تفریق کے منفی اثرات تمام ماتحت عدالتوں تک جائیں گے۔ اور اگر نظامِ عدل ہی غیر یقینی کا نشانہ بنے، تو یہ امر انتخابات نہ ہونے یا اس میں مزید تاخیر کا جواز بن سکتا ہے۔(5) چوں کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن ہی کو کرنا ہے،تو اسے بااختیار، مستحکم اور منظّم بنانا اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ اِس ضمن میں ضروری ہے کہ عدالت انتخابات کے امور میں الیکشن قوانین کا سختی سے اطلاق کرے۔ عدالت اور عوام کا الیکشن کمیشن پر یک ساں اور مکمل اعتماد ہونا چاہیے۔ 184(3) اور199 جیسی آئینی شقوں پر انحصار قوانین کے یک ساں نفاذ میں حائل ہوتا ہے۔موجودہ بحران، جو پارلیمان اور عدالتِ عظمیٰ کے تعطّل سے جڑا ہوا ہے، اداروں کی اَنا کی جنگ نہیں بننا چاہیے کہ اس جھگڑے میں کوئی فاتح نہیں ہوگا۔ پاکستان کے عوام پہلے ہی پِس رہے ہیں۔سو، دونوں اداروں کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا، وگرنہ کوئی اور اُن کی جگہ لے لے گا۔