• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں گزشتہ دنوں ’’ورلڈ وش ڈے‘‘ یعنی ’’خواہشات کا عالمی دن‘‘ منایا گیا اور اس دن کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے مختلف تقریبات کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد لوگوں میں اس حوالے سے شعور و آگاہی پیدا کرنا تھا۔ اس سلسلے میں میک اے وش فائونڈیشن انٹرنیشنل سے الحاق 55 ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ’’ورلڈ وش ڈے‘‘ منایا گیا اور اس دن کی مناسبت سے کمشنر ہائوس کراچی، میک اے وش کے دفاتر، شہر کی مختلف عمارتوں اور چورنگیوں کو میک اے وش کی مخصوص ’’بلیو کلر‘‘ لائٹس سے سجایا گیا جس سے لوگوں میں میک اے وش کے بارے میں آگاہی پیدا ہوئی۔ اس حوالے سے ایک تقریب کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں میک اے وش کے بچوں اور ان کے خاندانوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر بچوں میں تحفے تحائف تقسیم کئے گئے۔ تقریب میں ایک دن کیلئے فوجی سپاہی، نیوی آفیسر اور فائٹر پائلٹ بننے والے میک اے وش کے بچوں نے بھی شرکت کی جنہوں نے آرمی، نیوی اور فضائیہ کی یونیفارم زیب تن کر رکھی تھی۔ یہ بچے اس بات پر رنجیدہ نظر آئے کہ گزشتہ دنوں ایک جماعت نے پاک فوج کی عمارتوں اور تنصیبات کے علاوہ ایم ایم عالم کےتاریخ رقم کرنیوالے سیبر طیارے کو بھی نذر آتش کردیا۔

’’ورلڈ وش ڈے‘‘ کی مناسبت سے کمشنر کراچی اقبال میمن نے کمشنر ہائوس میں میک اے وش فائونڈیشن پاکستان کے سالانہ فنڈ ریزنگ ڈنر کا اہتمام کیا جس میں غیر ملکی سفارتکاروں، کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے بزنس مینوں، مخیر حضرات، شوبز شخصیات، میک اے وش پاکستان کے رضاکاروں اور لاعلاج بچوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تقریب کی مناسبت سے کمشنر ہائوس کو میک اے وش کے بینرز، پینافلیکس اور میک اے وش پاکستان کے پرچموں سے سجایا گیا تھا۔ اس موقع پر کمشنر کراچی اقبال میمن، جو میک اے وش پاکستان کے بورڈ ممبر بھی ہیں، نے اپنی استقبالیہ تقریب میں شریک مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میک اے وش فائونڈیشن پاکستان لاعلاج امراض میں مبتلا بچوں کی خواہشات کی تکمیل کرکے ایک منفرد کام کررہی ہے اور ادارے کو ہم سب کی سپورٹ کی ضرورت ہے۔ آج اس تقریب کا مقصد جہاں ایک طرف میک اے وش کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے وہاں دوسری طرف فنڈ ریزنگ کرکے میک اے وش کے لاعلاج بچوں، جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے منتظر ہیں، کی خواہشات کی تکمیل کرنا ہے۔میک اے وش فائونڈیشن پاکستان کے بانی اور CEO کی حیثیت سے میں نے اپنی تقریر میں کمشنر کراچی اور تقریب میں شریک دیگر مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ میک اے وش پاکستان اپنے قیام سے اب تک 20ہزار سے زائد لاعلاج بچوں کی خواہشات کی تکمیل کرکے ان کے آخری دنوں میں ان کےچہروں پر مسکراہٹ بکھیر چکا ہے، ادارے کا مشن ہے کہ کوئی لاعلاج بچہ اپنی حسرت یا خواب لئے اس دنیا سے رخصت نہ ہو، میک اے وش کے پاس ایسے بیمار بچوں کی فہرست موجود ہے جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے منتظر ہیں اور آپ کا تعاون ان بچوں کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے کا سبب بن سکتا ہے۔اس موقع پر فارمولا ون گرانڈ پری اور ورلڈ چمپئن میکس ورسٹاپن سے لاعلاج بچے کی ملاقات اور بچوں کا اپنی فیملی کے ہمراہ عمرہ کرنے کی ویڈیوز بھی دکھائی گئیں جس کے بعد بیمار بچوں نے اپنے تاثرات سے شرکاء کو آگاہ کیا۔ تقریب کے اختتام پر محفل غزل کا بھی انعقاد کیا گیا جسے تقریب میں شریک مہمانوں نے بے حد سراہا۔

بچے ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں کیونکہ انہیں آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنا ہوتی ہے مگر موذی مرض میں مبتلا بیمار بچے معاشرے کا وہ حصہ ہیں جو سب سے زیادہ توجہ کے مستحق ہیں۔ کوئی بھی مہذب معاشرہ ان بچوں کو نظر انداز کرنے یا انہیں معاشرے میں قابل احترام مقام سے محروم کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اسلام نے بھی اس بارے میں خصوصی تعلیمات دی ہیں۔ وہ بچے خوش نصیب ہوتے ہیں جن کی خواہشات ان کے والدین ان کی زندگی میں ہی پوری کردیتے ہیں لیکن ایک بڑی تعداد ایسے غریب بچوں کی بھی ہے جن کی چھوٹی خواہشات بھی ان کے والدین پوری کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور یہ بیمار بچے اپنی خواہشات دل میں لئے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ میک اے وش پاکستان آج تک جن بچوں کی خواہشات کی تکمیل کرچکا ہے، ان میں سے کئی بچے ہم میں موجود نہیں لیکن مجھے خوشی ہے کہ وہ بچے کوئی خواب یا خواہش لئے اس دنیا سے رخصت نہیں ہوئے اور ہم اُن بچوں کی زندگیوں میں اضافہ تو نہ کرسکے مگر اُن کی خواہشات ضرورپوری کرپائے۔

پاکستان میں مغربی رسومات کی اندھا دھند تقلید کرتے ہوئے نوجوان تحفے تحائف کی خریداری میں کروڑوں روپے خرچ کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں لیکن اگر اس کے بجائے ہم سب مل کر اپنی کمیونٹی کے کسی غریب گھرانے کی مدد یا کسی لاعلاج بچے کی خواہش کی تکمیل کا بیڑا اٹھالیں تو زیادہ دلی سکون اور حقیقی خوشی حاصل ہو گی اور پاکستان میں کوئی بیمار بچہ اپنا خواب لئے اس دنیا سے رخصت نہ ہوگا۔ ہمارا یہ عمل نہ صرف بچے کے چہرے پر خوشیاں بکھیرنے بلکہ ہماری نجات کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

تازہ ترین