چینی قونصلیٹ لاہور نے دورہ چین کا اہتمام کیا ہے اور حسب سابق میزبان چینی بھائی ہی ہیں ۔ ان سطور کی تحریر کے وقت بیجنگ کی بلند و بالا عمارات اور ان عمارات میں پنہاں چینیوں کا عزم و ہمت میرے سامنے ہے کہ آپ سے بیجنگ سے مخاطب ہوں ۔ 2019 کے بعد چین آمد ہوئی ہے اور اس لمبی جدائی کی وجہ سب جانتے ہیں بلکہ چہروں پر ماسک لگائے ہم سب ایک ہی وبا سے مقابلہ کر رہے تھے اور دنیا بند پڑی تھی ۔ مگر اب چین دوبارہ سے رواں دواں ہے اور اپنے دوست ملک کی اس چمک دمک کی بقا کے لئے ہم تمام پاکستانی دعا گو ہیں۔ پچھلی بار چین آیا تھا تو اس وقت پاکستان کے سیاسی حالات آج کی نسبت يکسر مختلف تھے اور ان حالات کے پاک چین تعلقات کے سب سے بڑے معاشی منصوبے پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے ۔ عمران خان حکومت کی کیا معاشی حکمت عملی تھی یہ تو نہ ان کے دور میں سمجھ آ سکی اور نہ ہی ان کو کوئی دلچسپی تھی کہ کوئی سمجھ سکے ۔مگر یہ بات طے شدہ ہے کہ ان کے دور میں سی پیک پر کام کی رفتار کچھوے کی رفتار سے بھی سست پڑ چکی تھی ۔ اس کیفیت پر اضطراب کے آثار چینی مقتدر حلقوں میں صاف طور پر دیکھے جا سکتے تھے جب میں 2019 میں چین میں تھا تو ایک ہی سوال بار بار کیا گیا کہ حکومتوں کے آنے سے پاک چین تعلقات کبھی متاثر نہیں ہوئے اور دونوں ممالک نے جو بھی اور جب بھی کوئی سلامتی سے متعلق وعدہ کیا یا معاشی معاہدہ کیا،اس کی پاسداری کی گئی ، مگر سی پیک پر 2018 کے بعد سے وہ گرم جوشی نہیں ہے جو ہونی چاہئے اس کی کیا وجہ ہے ؟ ایسی کون سی افادیت سامنے آ گئی تھی جو سی پیک کو پیچھے دھکیل رہی تھی دراصل اس میں اور بہت ساری بین الاقوامی وجوہات کے ساتھ ساتھ _ضد اور صرف ایک شخص کی مخالفت کاجذبہ کارفرما تھا ۔ مگر اب حالات بالکل بدل چکے ہیں صرف حکومت ہی تبدیل نہیں ہوئی ہے بلکہ حکومت دلانے والے عناصر بھی اپنے گھروں پر ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں ،منظرنامہ ہی تبدیل ہو چکا ہے ۔ چینی اپنی زبان پر اسی طرح سے قائم ہیں ،جس طرح سی پیک کے معاہدے پر دستخط کرتے وقت قائم تھے۔ چین میں بھی سیاسی تسلسل کے حوالے سے غیر معمولی واقعہ پیش آچکا ہے صدر شی تیسری بار منصب صدارت پر موجود ہیں اور یہ اس حقیقت کی غماضی ہے کہ ان کے دور میں چین نے جو معاشی کارکردگی دکھائی ہے اور جس طرح انہوں نے اول اپنے ملک میں غربت پر فتح پانے کا اعلان کیا اور دوئم دنیا بھر سے مضبوط معاشی روابط قائم کرنے کیلئے اقدامات کئے ہیں جن میں سے سی پیک کو تو بی آر آئی کے پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے ،اس تمام کےتسلسل کے چینی زبردست طور پر خواہشمند ہیں ۔ پاک چین تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی غرض سے پہلے وزیراعظم شہباز شریف نے دورہ کیا اور پھر اس کے بعد پاکستان میں جب بری فوج کی کمان تبدیل ہوئی تو چینی شدت سے خواہش مند تھے کہ پاکستان کے نئے فوجی سربراہ دورہ چین کریں۔ راقم الحروف انہی کالموں میں جنرل عاصم منیر کے دورہ چین سے قبل یہ مستقل طور پر تحریر کرتا رہا کہ ان کو اس دورے کیلئے فوری طور پر روانہ ہو جانا چاہئے۔اب وہ چین جا چکے ہیں عسکری امور کے ساتھ ساتھ معاشی معاملات اور ان پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی گفتگو کی گئی ہے ۔ ایک تصور یہ ہے کہ جتنی گفتگو ہوئی ہے اس سے زیادہ کی گنجائش موجود تھی اور اس سے زیادہ کیلئے بھی تیاری ہونی چاہئے تھی لیکن بہرحال وزیراعظم اور حال ہی میں کئے گئے آرمی چیف کے دورہ چین کے اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور چین میں اس بات کا احساس پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ ترین سطح پر یہ احساس جاگزیں ہو چکا ہے کہ سی پیک کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے جو غلطیاں کی گئی ہیںاور جن غلطیوں کے نتائج بدترین انداز سے پاکستانی معیشت پر اثر انداز ہورہے ہیں ان کا ازالہ کیا جانا چاہئے ۔ کیونکہ ان کے ازالے کے بعد ہی ہم آئی ایم ایف وغیرہ سے بے نیاز ہو سکتے ہیں ورنہ اس بار تو آئی ایم ایف ہمارے لئے ہٹلر ہی بن گیاہے کہ اس کا سخت رویہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔ چین میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ سی پیک میں مزید سرمایہ کاری کرنی ہے تو اس کیلئے پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے سازگار ماحول درکار ہے چین کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ۔ چین کی یہ خواہش ہےکہ پاکستان میں سیاسی استحکام قائم ہو اور معاشی وعدوں پر عملدرآمد کا ایسا میکنزم ہو جو کسی بھی تبدیلی کی صورت میں متاثر نہ ہو۔ ابھی چین میں ہی ہوں اور اگلی بار بھی وہیں سے گزارشات پیش کروں گا۔