• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کے حل

سوال: ایک بندے کے پاس اتنے پیسے تھے کہ وہ حج کر سکتا تھا، مگر کچھ ضرورت مند ایسے آگئے، جن کی امداد ضروری تھی۔ وہ تمام پیسے ان کی امداد میں خرچ ہوگئے۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے غلط کیا۔ پہلے حج کرتے، لوگوں کی امداد ضروری نہیں تھی، حج ضروری تھا۔ اس بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب: اگر کسی شخص کی ملکیت میں اتنی رقم ہو جس سے اس پر حج فرض ہو جائے، یعنی جن دنوں میں حج کے قافلے جاتے ہیں یا حج کی درخواستیں وصول کی جاتی ہیں ان دنوں میں یا شوال، ذوالقعدہ اور ذو الحجہ کے ابتدائی ایام میں کسی کے پاس اتنی رقم ہو کہ سفرِ حج کی آمد و رفت کے اخراجات، وہاں رہائش کے انتظام اور کھانے پینے کے خرچے اور دورانِ سفر اہل و عیال کے نفقے وغیرہ کے لیے کافی ہو، اس پر لازم ہے کہ وہ حج ادا کر لے، اس میں بلا وجہ تاخیر نہ کرے، لیکن اگر وہ رقم کسی دوسرے مصرف میں خرچ ہو جائے تو ایسے آدمی پر حج بدستور فرض رہتا ہے، حج کا ذمہ ساقط نہیں ہوگا، بلکہ حج کی ادائیگی اس کے ذمہ میں باقی رہے گی۔

اگر مرنے سے پہلے حج کرنے کے اسباب بن جائیں تو حج ادا کرلے، ورنہ حجِ بدل کی وصیت کرنا ضروری ہوگا، اور اسباب کے باوجود حج نہ کرنے کی وجہ سے توبہ واستغفار کرنا بھی ضروری ہوگا، پھر اگر اس کے ترکہ میں مال ہوتو ورثاء پر ایک تہائی مال میں سے حج ِبدل کرانا لازم ہوگا، اور اگر ترکہ میں مال نہ ہو تو ورثاء پر حج بدل کرانا لازم تو نہیں ہوگا، البتہ اگر خوشی سے حج بدل کرادیں تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا۔