• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے توتھوڑا سا ذکراس بات کا کہ کل یوم تکریم شہدا منایا گیا۔اس موقع پر میں نے ایک نظم کہی

گلاب ِسرخ، شباب ِچمن ،شہید قوم

بہارِ قوس قزح کا چلن ،شہید قوم

شعور قوم کا ہیں بانکپن، شہید قوم

شہید دین ،شہید وطن ،شہید قوم

مرے شہید مگر آج آب دیدہ ہیں

وہ اپنے ملک کی حالت پہ غم گزیدہ ہیں

افق کے پار پریشاں کہ کیا کیا ہم نے

وجود آپ ہی اپنا جلالیا ہم نے

خود اپنی ذات کو دشمن بنا لیا ہم نے

فلک سے خود کو زمیں پر گرالیا ہم نے

گیا نہیں ہے ابھی کچھ اے والیان ِ وطن

بس ایک پیج پہ سارے ہوں پاسبان ِ وطن

مگر پاسبانِ وطن ایک صفحے پر نہیں آ رہے بلکہ فاصلہ بڑھ رہا ہے ۔ بریگیڈئیر حامد سعید اختر سے گزشتہ روز اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوئی ان کا خیال تھاکہ ففتھ جنریشن وار ہم ہارنے والے ہیں۔ وہ جنگ یہی ہے کہ فوج اور عوام میں فاصلے بڑھا دئیے جائیں ۔ اس وقت ان فاصلوں کو کم کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔جنہوں نے جرم کیا ہے انہیں سزا ملنی چاہئے مگر بہت احتیاط کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ اس بات کا بہت امکان ہے کہ وہ جذباتی نوجوان جو صرف احتجاج کیلئے گئے تھے ۔وہاں صرف موجود تھےاور نعرے لگا رہے تھے ۔ انہیں بھی سزا ہو سکتی ہے ۔ جو نہیں ہونی چاہئے ہاں جنہوں نے شہیدوں کی یادگاروں پر توڑ پھوڑ کی ۔انہیں سزا ملنی چاہئے ۔ ہمارے شہیدوں کے ساتھ جنہیں دشمنی ہے ۔ بے شک وہ ہم میں سے نہیں مگرخشک لکڑی کے ساتھ گیلی لکڑی کو نہیں جلنا چاہئے ۔پھر سزا سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان نوجوانوں کی برین واشنگ کی جائے ۔ سمجھا جائے کہ وہ کیسے اس مقام تک پہنچ گئے ۔جب کہ عمران خان نے زندگی بھر پُر امن سیاست کی ہے ۔اسے گولیاں لگیں مگر ایک گملا نہیں ٹوٹا ۔یہ کیا ہواکہ اس کی گرفتاری پر اتنا ہولناک ری ایکشن آیا ۔بہر حال پاکستان حالت ِ جنگ میں ہے ۔ ففتھ جنریشن وار میں ہم مسلسل کمزور تر ہوتے جارہے ہیں۔

ایک اچھی بات جو نظر آرہی ہے وہ یہ کہ پی ٹی آئی پر پابندی نہیں لگائی جا رہی ۔اس کا ثبوت یہی ہے کہ پی ٹی آئی کو مسلسل کمزور کرنے کی کوششیں جاری ہیں ۔الیکشن ہونے کے امکانات بھی واضح ہونے لگے ہیں ۔ جہانگیر ترین بھی میدان میں اترنے والے ہیں ۔عون چوہدری اس حوالے سے مسلسل حرکت میں ہیں ۔امکان یہی ہے کہ بجٹ پیش کرنے کے بعد قومی اسمبلی توڑ دی جائے گی اور اکتوبر میں انتخابات ہونگے ۔وفاقی نگران گورنمنٹ کی تشکیل کیلئے گفت و شنید شروع ہوگئی ہے ۔وزیر اعظم شاید پھر امریکہ سے ایئرپورٹ پر اترے گا مگر اس بار کھیل صحافیوں کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی محسن نقوی کی طرح وہ بھی صحافی ہوگا ۔اطلاعات یہی ہیں کہ اکتوبر سے پہلے اگر رپورٹس آئیں کہ پی ٹی آئی جیت رہی ہے تو شاید الیکشن لیٹ کر دئیے جائیں ۔یہ تو وہ منظر نامہ ہے جو دکھائی دے رہا ہے مگر پاکستان عجیب و غریب ملک ہے یہاں جس دن کسی پر فردجرم عائد ہونی ہوتی ہے وہ اسی روز ملک کا وزیر اعظم بھی بن جایا کرتا ہے ۔اس لئے کوئی پیشین گوئی فائنل نہیں کی جاسکتی ۔اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان ممکن ہے کسی بھی وقت صلح ہوجائے ۔ کوششیں جاری ہیں ۔ابھی نواز شریف کو پاکستان آنےکی اجازت نہیں ہے اگرچہ اس کا بھائی ملک کا وزیر اعظم ہے ۔ابھی تک بے شمار معاملات میں نون لیگ اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر نہیں ہیں۔

پی ٹی آئی کو لوگوں میںسے نکالنے کا کوئی پراجیکٹ بنایا جائے ۔اس پر کئی لوگ کام کر رہے ہیں مگر یہ اتنا آسان کام نہیں ۔ بنیادی طور پر لوگ، جو ہیں، وہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ سے مکمل طور پر اکتا چکے ہیں ۔ لوگوں کو یقین ہے کہ عمران خان کے علاوہ باقی جتنی لیڈر شپ ہے یہ کسی نہ کسی سطح پر کرپشن میں ملوث ہے ۔عمران خان کے خلاف بھی کرپشن کے مقدمات بنائے گئے ہیں مگر وہ مذاق محسوس ہوتے ہیں ۔ ایک شخص جس نے اپنی تمام جائیداد شوکت خانم کو دے رکھی ہے۔اس نےکرپشن کیونکر اور کس لیے کرنی ہے۔ یونیورسٹی بنانے کےلئے جو زمین اسے دی گئی ۔ اس میں اس کاذاتی مفاد کیا تھا کچھ بھی نہیں ۔یہ وہ معاملات ہیں جن کی وجہ سے عمران خان اب بھی لوگوں کے دلوں میں دھڑکتا ہے۔

تازہ ترین