• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک نزدیکی بستی میں یہ مشہور تھا کہ مسلمانوں کے صوفی بزرگ بابا فرید کسی ہندو کے ہاتھ سے پانی نہیں پیتے، یہ سب پروپیگنڈا تھا ۔ بابا فرید تو محبتیں تقسیم کیا کرتے تھے ۔پھر ایک روز یوں ہوا کہ اس نزدیکی بستی میں ایک ہندو لڑکے کی شادی ہوئی ۔ اس کی نوبیاہتا دلہن نے بابا فرید کے بارے میں پروپیگنڈے سے ہٹ کران کی عظمت کی باتیں سن رکھی تھیں ۔یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا کہ نوبیاہتا دلہن نے بستی والوں کے پروپیگنڈے کو جھٹلاتے ہوئے کہا ’’آج دوپہر کے بعد میں اور میرا خاوند بابا فرید کے لئے شکر کا شربت لے کر جائیں گے،میں انہیں اپنے ہاتھوں سے شربت پلاؤں گی‘‘۔ نوبیاہتا جوڑا بستی سے نکلا اور عصر کے وقت بابا فرید کے پاس پہنچا ۔ نوجوان جوڑے نے سلام پیش کیا اپنی شادی کا بتایا اور ساتھ ہی دلہن نے شکر کا شربت پیش کیا ۔ بابا جی نے گاگر وصول کی اور اپنے ایک مرید سے کہا اسے رکھئے آج روزہ اسی سے افطار کریں گے کیونکہ دلہن کے دماغ میں بستی والوں کا پروپیگنڈا تھا سو اس نے عرض کیا کہ میں یہ شربت اپنے ہاتھ سے آپ کو پلانا چاہتی ہوں ۔ دلہن کی بات سن کر بابا فرید نے اپنے مرید سے کہا کہ گاگر اٹھا لاؤ ۔ لڑکی نے گاگر میں سے شربت پیالے میں ڈالا اور بابا فرید کی طرف بڑھا دیا۔ بابا فرید نے عصر کے وقت روزہ توڑ دیا ۔ ہندو لڑکی بہت خوش ہوئی۔ دونوں میاں بیوی خوشی خوشی رخصت ہوئے ۔ ان کے جانے کے بعد بابا فرید کے مریدین نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ آپ نے کیا کیا ؟ ایک ہندو لڑکی کے کہنے پر عصر کے وقت روزہ توڑ دیا ۔ آوازوں میں شدت پیدا ہوئی تو بابا فرید نے سب سے کہا ’’بیٹھ جاؤ اور میری بات سنو۔ آپ مجھے یہ بتاؤ کہ روزہ توڑنے کا کفارہ ہے؟‘‘ سب نے بیک زبان ہو کر کہا’’ جی ہاں روزہ توڑنے کا کفارہ ہے‘‘۔ پھر بابا فرید نے پوچھا ’’ یہ بتاؤ کہ دل توڑنے کا کوئی کفارہ ہے ؟‘‘ سب بولے’’نہیں، دل توڑنے کا کوئی کفارہ نہیں‘‘۔ اس مرحلے پر بابا فرید نے فرمایا’’ میں نے روزہ توڑا ہے، اس کا کفارہ ادا کر لوں گا، میں نے دل نہیں توڑا کیونکہ اس کا کفارہ نہیں‘‘۔ جب ہندو نوبیاہتا جوڑا واپس اپنی بستی پہنچا تو بستی والے منتظر تھے کہ ہمارے گاؤں کی نئی دلہن کا شوق پورا ہو گیا ہو گا کیونکہ مسلمانوں کے صوفی بزرگ نے اس کے ہاتھ سے شربت پیا نہیں ہو گا مگر نوبیاہتا دلہن نے بتایا میں نے شکر کا شربت اپنے ہاتھوں سے پلایا ہے اور یاد رہے کہ بابا جی نے شربت روزے کے دوران پیا اور اپنا روزہ توڑ دیا ۔ بستی کے لوگ بہت متاثر ہوئے اور اگلے دن پورے گاؤں کے لوگوں نے بابا جی کی خدمت میں پیش ہو کر اسلام قبول کر لیا ۔ یوں دل نہ توڑنے کی وجہ سے پورا گاؤں مسلمان ہو گیا۔ محبت دلوں کو فتح کرتی ہے جبکہ نفرت دلوں میں کدورتیں بھرتی ہے۔

پچھلے چند کالموں میں خاکسار نے یہی عرض کرنے کی کوشش کی کہ نفرتیں ختم کرو اور محبت سے آگے بڑھو۔ اسی دوران 9 مئی کے واقعات سامنے آ گئے۔ شرپسند عناصر کو سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے تھا، خاص طور پر شہدا کی تصاویر کی بے حرمتی نہیں کرنی چاہئے تھی مگر یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والے شر پسند عناصر تو قصور وار ہیں ، کیا ان لوگوں کی کوئی خطا نہیں جو حکمران ہیں کیونکہ جان و مال کا تحفظ کرنا توان کی ذمہ داری تھی۔ سرکاری املاک کی حفاظت کرنا ان کا فرض تھا۔ کیا یہ بات درست نہیں کہ حکمرانوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برتی اور وہ سرکاری املاک کا دفاع کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے۔ اس ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ یا کسی صوبے کے آئی جی نے استعفیٰ دیا؟ حتیٰ کہ وزیر داخلہ یہ کہتے ہوئے دکھائی دئیے کہ ہم نے سیکورٹی ہٹا لی تھی۔ فرائض کی ادائیگی میں غفلت کا مظاہرہ کرنے پر کیا ان کرداروں کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جانا چاہئے ؟ مگر یہاں تو کھیل ہی الٹ ہوا حکمران اپنے فرائض بھول کر املاک کے ماتم میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے اس سوچی سمجھی سازش کے تحت سارا الزام پی ٹی آئی کے سر دھر دیا حالانکہ عمران خان تو زیر حراست تھے ۔ پھر اس کے بعد پولیس نے لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارنا شروع کردیے ۔ توڑ پھوڑ کی گئی ، عورتوں کی تذلیل کی گئی، بچوں کو ہراساں کیا گیا اور جو بھی پی ٹی آئی کا کارکن ہتھے چڑھا اس پر تشدد کے پہاڑ توڑ دیے گئے۔ مرد تو مرد ،عورتوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ پھر ڈرائی کلین کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور جو کوئی کہتا کہ میں پی ٹی آئی چھوڑ رہا ہوں اس پر قائم مقدمات ختم ہو جاتے حتیٰ کہ آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات بھی مٹ جاتے۔ ایک لا تعلقی پاک صاف کر دیتی۔ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ لوگ ملوث تھے تو پھر ایک لا تعلقی سے ان کے مقدمات کیسے ختم ہو گئے۔ کہیں اصل منصوبہ لا تعلقی تو نہیں تھا۔ جس طرح ڈاکٹر شیریں مزاری جیسی پڑھی لکھی خاتون نے تحریک انصاف کو چھوڑا اس پر ہیرے جیسے اعتزاز احسن کا دل ٹوٹ گیا ۔ ان کی آنکھوں سے بھی آنسوچھلک پڑے۔ گرفتاریوں ، مقدمات اور تشدد کا کھیل ہنوز جاری ہے ۔ شرط ایک ہی ہے پی ٹی آئی چھوڑ دو ۔ حالیہ گرفتاریوں اور تشدد سے بہت سے دل ٹوٹ رہے ہیں خاص طور پر اوورسیز پاکستانیوں کے دل رو رہے ہیں۔ یاد رہے کہ دل توڑنے کا کوئی کفارہ نہیں ۔بقول فرحت زاہد

سانس لیتے ہیں عادتاً ورنہ

لوگ اندر سے مر گئے صاحب

کیا اس قوم کے فیصلہ ساز فتح مکہ کا سبق بھول گئے کہ جہاں رسول خدا نے بد ترین دشمنوں کو بھی معاف کر دیا تھا ۔ دلوں کو جوڑنے کے لئے معاف کرنا اور درگزر کرنا افضل ہے مگر یہاں کوئی کسی کو کیا سمجھائے کہ بقول محمود شام

وہ سمجھتے ہیں وہ ہی سب کچھ ہیں

یہ تو منصب فقط خدا کا ہے

تازہ ترین