بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ماضی میں کئی بار کٹّر ہندو قوم پرست ہونے کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرچکے ہیں۔
گزشتہ روز نریندر مودی نے نئی بھارتی پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح کیا تو یہ افتتاحی تقریب بھی بغیر کسی تنازع کے ختم نہیں ہوسکی۔
نئی بھارتی پارلیمنٹ کی عمارت کی عظیم الشان تقریب میں سورہ رحمٰن کی تلاوت نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
اتوار کے روز ہونے والی اس افتتاحی تقریب کا ایک درجن سے زائد اپوزیشن جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تھا جس کی وجہ سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔
جیسے ہی تقریب شروع ہوئی تو ہندو پنڈتوں نے روایتی رسومات ادا کیں اور مذہبی بھجن گائے جس سے ملک میں ہندو اکثریت کا احساس نمایاں ہوا۔
لیکن اسی دوران قرآن پاک کی سورہ رحمٰن کی تلاوت نے مختلف حلقوں کی طرف سے حیرت اور تنقید دونوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے بہت سے مخالفین اور مسلم کمیونٹی کے ارکان نے وزیرِ اعظم پر الزام لگایا کہ اُنہوں نے پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب میں سورہ رحمٰن کی تلاوت کو شامل کرکے مسلمانوں کے بارے میں اپنے تعصبانہ رویے کو چُھپانے کی کوشش کی ہے۔
ناقدین کا استدلال ہے کہ صرف یہ دِکھاوا وزیرِ اعظم کو مذہب کی بنیاد پر امتیاز ی سلوک کے الزامات سے بری نہیں کرسکتا ۔
ناقدین نے اس موقع پر متنازع شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور 2002ء میں نریندر مودی کے بطور وزیرِ اعلیٰ گجرات کروائے گئے فسادات بھی دوبارہ یاد دلائے۔
مذکورہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت میں نریندر مودی کی حکومت کی پالیسیاں وہاں کی مسلم آبادی کو متاثر کرتی ہیں اور ان کی پسماندگی کے احساس کو برقرار رکھتی ہیں۔