عدالت میں پیشی کے موقع پر پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے صحافیوں کے کچھ سوالات کے جوابات دیے، کچھ کے گول مول جواب دیے اور کچھ کے ٹال گئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر صحافی نے ان سے سوال کیا تھا کہ پارٹی میں کوئی فعال کردار ادا کریں گے۔
اسد عمر نے جواب دیا کہ آپ کو پتہ ہے کہ ووٹ صرف عمران خان کا ہے، کوئی ہو یا نہ ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا، صبح سے تیسری عدالت میں پیش ہوا ہوں۔
صحافی نے سوال کیا کہ آپ لاہور جا رہے ہیں، عمران خان سے ملاقات کریں گے؟
اسد عمر نے جواب دیا کہ جی شاید! ممکن ہے کہ عمران خان سے ملاقات کر لوں۔
صحافی نے دریافت کیا کہ جب پی ٹی آئی پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چکی ہے تو اس کو کیا کرنا چاہیے؟
اسد عمر نے اس بات کا جواب ٹال گئے اور کہا کہ اس پر کسی دن آرام سے تفصیلی بات کریں گے۔
صحافی نے پوچھا کہ جو بھی پریس کانفرنس کرتا ہے کہتا ہے کہ دباؤ نہیں ہے، اس پر کیا کہیں گے؟
اسد عمر نے جواب دیا کہ جو کہہ رہے ہیں آپ ان سے پوچھیں۔
صحافی نے سوال کیا کہ کیا ایک جیسا اسکرپٹ لکھا گیا جو ایک جیسی بات کر رہے ہیں۔
اسد عمر نے جواب میں کہا کہ میرے حوالے سے آپ ایسی بات نہیں کر سکتے، میری پریس کانفرنس مختلف تھی، بھٹو صاحب پر جب مشکل وقت آیا تھا تب باقی لیڈر کہاں گئے تھے؟ پیپلز پارٹی میں کوئی نہیں بچا تھا، مسلم لیگ ق نے جب 2002ء میں حکومت بنائی تھی اس میں سارے مسلم لیگ ن والے تھے۔
صحافی نے سوال کیا کہ بابر اعوان نے کہا کہ ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے لوگ واپس جا رہے ہیں، اس پر آپ کیا کہیں گے؟
اسد عمر نے کہا کہ آپ جتنی بار مرضی پوچھیں میں پارٹی میں ہی ہوں، جلسوں اور ٹی وی پروگرام میں فیصلہ نہیں ہونا چاہیے کہ کس سیاستدان نے صحیح کیا یا غلط، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ جو سیاسی مخالف ہے اسے انتقام کا نشانہ بنایا جائے، قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے، جو قانون توڑتا ہے اسے سزا ہونی چاہیے۔
صحافی نے دریافت کیا کہ حالات کب بہتر ہوں گے؟
اسد عمر نے جواب دیا کہ ادارۂ شماریات کی رپورٹ آ گئی ہے کہ 25 کروڑ کی آبادی ہے جو شدید مشکلات کا شکار ہے۔