وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں ون مین شو ختم کرنا چاہتے ہیں، نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ہم کوئی قدم قانون کے مطابق اٹھائیں اُس کو بھی روکا جاتا ہے۔
قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب میں خواجہ آصف نے کہا کہ عدلیہ پارلیمنٹ کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی، یہ صورتحال زیادہ تر تک نہیں چل سکتی۔
انہوں نے کہا کہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے کابینہ کی منظوری سے کمیشن بنایا گیا، چیف جسٹس سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کو کام سے روک دیا۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ لیکڈ آڈیوز میں چیف جسٹس کی ساس کی آڈیو بھی تھی، جب مفادات وابستہ ہوں تو اصول یہ ہے کہ منصفی کے منصب پر نہیں بیٹھنا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ توقع تھی کہ چیف جسٹس یہ معاملہ کمیشن کے ہاتھ ہی میں رہنے دیں گے، ہم نے عدلیہ سے ہٹ کر کوئی بندہ کمیشن میں شامل نہیں کیا۔
خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بیٹے سے متعلق کیس سے خود کو الگ کیا تھا، اب لگتا ہے کہ اچھی روایات کو ترک کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اُس وقت افتخار چوہدری الگ ہوسکتے ہیں تو آج کے چیف جسٹس کو بھی بینچ سے الگ ہونا چاہیے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں چیف جسٹس کے اختیارات بڑھائے گئے، ایکٹ بنا ہی نہیں تھا کہ سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا، یہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں انصاف کی شفافیت بڑھائی جانی چاہیے، ہم چاہتے ہیں عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی نہ ہو۔
خواجہ آصف نے کہا کہ چیف جسٹس کہتے ہیں پارلیمنٹ عدلیہ کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی، عدلیہ پارلیمنٹ کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی، پارلیمنٹ خود مختار ہے۔
انہوں نے کہا کہ موبائل ہیک کرنے کیلئے کسی لسننگ ڈیوائس کی ضرورت نہیں، ثاقب نثار کے بیٹے کی آڈیو ہے، وہ انکار کردے کہ میری نہیں ہے، اُس نے جو پیسے پکڑے تھے، پتہ نہیں وہ واپس کیے کہ نہیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ہم نے اختیارات تقسیم کرنے کی تجویز دی، جب ہماری ٹیریٹری بریچ ہوگی تو رسپانس آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ آپ انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں، ہم آپ کی عزت کو بڑھانا چاہتے ہیں۔