• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اس بات پر تو عمومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ملک کی معاشی تنزلی کی بنیادی وجہ برآمدی شعبے کی خراب کارکردگی ہے۔ تاہم اس حوالے سے بہت کم بات کی جاتی ہے کہ برآمدات میں اضافے کیلئے ہمارے پاس کن کن شعبوں میں آگے بڑھنے کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف فیشن اینڈ ڈیزائن لاہور میں دو روزہ نیشنل ڈیزائن کانفرنس 2023 کا انعقاد کیا گیا۔ یہ کانفرنس اس لحاظ سے نہایت اہمیت کی حامل تھی کہ اس میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے علاوہ انڈسٹری اور اکیڈیمیا سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز اور اہم شخصیات شریک تھیں۔ اس موقع پر میں نے بطور مہمان خصوصی اپنی گزارشات میں شرکاء کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ انڈسٹری اور اکیڈیمیا کے مابین رابطہ کاری بہتر بنا کرنہ صرف درپیش چیلنجز کا بہتر طور پر مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ انڈسڑی کو فروغ دینے کیلئے دستیاب مواقع کی نشاندہی کا طریقہ بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں میں نےٹیکسٹائل، فرنیچر، فیشن اور جم اینڈ جیولری سیکٹر کے پوٹینشل کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل میں ہر شعبے کے حوالے سے الگ الگ نیشنل ڈیزائن کانفرنس کروانے پر بھی زور دیا تاکہ ہر سیکٹر کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے انڈسٹری اور اکیڈیمیا کے تعلق کو مزید بہتر بنا کر پائیداری اور جدت کے سفر کو آگے بڑھایا جا سکے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف فیشن اینڈ ڈیزائن ملک کی واحد چارٹرڈ یونیورسٹی ہے جو پبلک سیکٹر میں فیشن اینڈ ڈیزائن کے شعبے میں عالمی معیار کے مطابق پروفیشنلز ڈگری پروگرام کروا رہی ہے۔ اس ادارے سے فارغ التحصیل طلبہ نہ صرف فیشن انڈسٹری کی ترویج اور ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ یہ باصلاحیت پرفیشنلز ڈیزائن ڈویلپمنٹ اور ویلیو ایڈیشن کے ذریعے پاکستان کی برآمدات کو بڑھانے میں بھی گرانقدر حصہ ڈال رہے ہیں۔

واضح رہے کہ عالمی سطح پر فیشن انڈسٹری کا حجم تین ہزار ارب ڈالر سے زائد اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کا حجم ایک ہزار ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اسی طرح فرنیچر انڈسٹری چھ سو ارب ڈالر اور جم اینڈ جیولری کی عالمی تجارت کا حجم تقریباً پانچ سو ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ اگر ان اعدادو شمار کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ان چند شعبوں کی ترقی و ترویج کیلئے ایک طویل المدت مربوط پروگرام تشکیل دے کر اس پر عملدرآمد ممکن بنا سکیں تو اس سے تھوڑے ہی عرصے میں ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ فیشن اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے اشتراک سے ویلیو ایڈیشن کے ذریعے پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات کو نئی بلندیوں سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ پاکستان ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرنے والے دس بڑے ممالک میں شامل ہے تاہم ٹیکسٹائل کی عالمی برآمدات میں ہمارا حصہ پانچ سے سات فیصد تک محدود ہے۔ علاوہ ازیں ہمیں ٹیکسٹائل برآمدات میں نٹ ویئر،اپیرل اور اسپیشلائزڈ فیبرک کا شیئر بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت پاکستان کی ٹیکسٹائل میڈاپس کی برآمدات میں ہوزری نٹ وئیر کا حصہ 35فیصد، ریڈی میڈ گارمنٹس کا 30 فیصد اور بیڈ وئیر کا حصہ 25فیصد ہے۔ اس لئے اگر ہم اپنے ڈیزائنز میں جدت اور میٹریل میں بہتری لانے کیلئے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کرنے کے علاوہ فیشن انڈسٹری کو فروغ دیں تو برآمدات کا حجم بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کی ویلیو میں اضافہ کر کے زیادہ زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔دوسری طرف فرنیچر کے شعبے میں ہاتھ سے کندہ شدہ لکڑی کے پاکستانی فرنیچر کی عالمی منڈیوں میں بہت زیادہ مانگ ہے اور اسے ایک ا سٹیٹس سمبل سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے لکڑی سے تیار فرنیچر کی امریکہ، برطانیہ، سری لنکا، متحدہ امارات، سعودی عرب، عمان اور کویت میں بھی بہت مانگ ہے۔ امریکہ میں زیادہ تر بیڈ روم فرنیچر جبکہ برطانیہ اور خلیجی ممالک میں کچن اور آفس فرنیچر کی مانگ زیادہ ہے۔ تاہم پاکستان میں فرنیچر سازی کی صنعت کا زیادہ تر انحصار روایتی طریقوں پر ہے۔ اسلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ فرنیچر مینو فیکچرنگ کیلئے استعمال ہونیوالی مشینری اور ہارڈ وئیر کی مختلف درآمدی مصنوعات پر ڈیوٹی ختم کی جائے۔ اس سے فرنیچر مینوفیکچرنگ کا شعبہ فروغ پائے گا اور ملکی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ فرنیچر کی برآمدات سے ملک کیلئے قیمتی زرمبادلہ بھی کمایا جا سکے گا۔

علاوہ ازیں جم اینڈ جیولری کے حوالے سے بھی پاکستان منفرد اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جواہرات کے ذخائر کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور بلوچستان کے جنوب مشرق میں جواہرات کے بے تحاشہ ذخائر موجود ہیں جن میں زیادہ تر کوہ ہندو کش، ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں میں پائے جاتے ہیںجو پاکستان کو جم اینڈ جیولری کی عالمی مارکیٹ کا اہم کھلاڑی بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان سے قیمتی پتھروں کی برآمدات میں گزشتہ دو سال کے دوران 123 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ تاہم مالیت کے اعتبار سے جواہرات کی درآمد کاحجم 17کروڑ روپے کے قریب ہے جو پاکستان کے حقیقی پوٹینشل سے انتہائی کم ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ قیمتی پتھروں کو کاٹنے اور پالش کرنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ عالمی معیار کے مطابق جواہرات تیار کرکےبرآمدات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جا سکے۔

تازہ ترین