• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ نے ہراسگی کیس میں صدر اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے خواتین کی ورک پلیس ہراسمنٹ سے متعلق کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے 14 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا۔

سپریم کورٹ نے سرکاری ٹی وی کی ملازمہ نادیہ ناز کی نظر ثانی درخواست منظور کرتے ہوئے کیس دوبارہ جائزہ کیلئے صدر مملکت کو بھجوا دیا۔

سپریم کورٹ نے ہراسگی کیس میں صدر مملکت اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت دوبارہ کیس سن کر فیصلہ کریں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں مرکزی کیس میں جنسی ہراسگی کی تعریف کو درست انداز میں پیش نہیں کیا گیا، صدر مملکت اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے قانون کو غلط انداز میں سمجھا، صدر مملکت اور ہائیکورٹ نے ہراسگی کا مطلب جنسی ہراسگی لیا۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ دونوں فورمز نے کیس میں درخواست گزار کے حقائق کا جائزہ نہیں لیا، ہراسگی کے معاملات میں متاثرہ فریق کا نقطہ نظر دیکھا جاتا ہے، موجودہ کیس میں صدر مملکت اور ہائیکورٹ تمام امور مد نظر رکھنے میں ناکام رہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ہراسگی کا قانون واضح ہے جنسی ہراسگی عورت کے وقار اور عزت کو متاثر کرتی ہے، ہراسمنٹ کا مطلب محض جنسی ہراسگی نہیں ہوتا، ہراسگی ورک پلیس پر کسی کا ذاتی استحصال، ذلت اور دشمنی کی صورت بھی ہو سکتی ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہراسگی کے قانون کا مقصد کام کی جگہ پر صنفی امتیاز کو ختم کرنا ہے۔

جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے 2 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ تحریر کیا۔

جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے اپنے نوٹ میں تحریر کیا کہ جسٹس عائشہ ملک کے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں، جنسی ہراسگی کی عام تعریف کے برخلاف قانون میں دیا گیا مطلب ہی درست تصور ہو گا۔

انہوں نے نوٹ میں تحریر کیا کہ ’جنسی طور پر توہین آمیز رویے‘ کے الفاظ جنسی ہراسگی کی تعریف واضح کرتے ہیں۔

قومی خبریں سے مزید