سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) اسمبلیوں کے انتخابات کروانے سے متعلق ازخود نوٹس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اور کے پی الیکشن کے فیصلےکو چار۔تین کا فیصلہ سمجھنا غلط فہمی پرمبنی ہے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 57 صفحات پر مشتمل تحریری تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن تاریخ کے حوالے سے ازخود نوٹس پر 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا، بینچ میں سے 4 ججز نے ازخود نوٹس اور درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔
4 ججز میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللّٰہ شامل تھے۔
اس میں کہا گیا کہ یہ تصور کہ بینچ کا فیصلہ چار، تین کا ہے، غلط فہمی پر مبنی ہے، 7 رکنی بینچ کبھی تشکیل ہی نہیں دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا کہ درحقیقت اور آئین کے مطابق 7 رکنی بینچ نہیں تھا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ 9 رکنی بینچ کے بعد 5 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔
تحریری فیصلے میں لکھا گیا کہ ہر اسمبلی کو الگ یونٹ اور الگ اختیار کی حیثیت حاصل ہے۔ قبل از وقت اسمبلی توڑنے پر نئے انتخابات کےلیے آئین نے مکمل طریقہ کار طے کر رکھا ہے۔
اس میں کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کےلیے الیکشن کمیشن کا صدر سے مشاورت نہ کرنا قانونی طور پر درست نہیں۔ صدر مملکت نے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ خود دے کر آئینی ذمہ داری پوری کی۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ صدر مملکت کا انتخابات کی تاریخ دینے کےلیے وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنا ضروری نہیں۔ اگر صدر انتخابات کی تاریخ الگ دیں، وزیراعظم الگ دیں تو اس سے وقت کا ضیاع ہوگا۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلی توڑنے کی سمری پر گورنر نے دستخط کیے۔ خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کو حاصل ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا کہ گورنر کا انتخابات کی تاریخ نہ دینا آئینی ذمہ داریوں سے انحراف ہے۔