• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں یہ ذکر کیا تھا کہ گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول اس زمانے میں لاہور کا واحد اسکول تھا جہاں الیکٹرک ورک شاپ، وڈ ورک شاپ اور میٹل ورک شاپ تھیں یہاں گھریلو اور کمرشل بجلی،لکڑی اور لوہے کا کام سکھایا جاتا تھا۔ کلاس ششم سے یہ تینوں کورسز شروع ہوتے تھے اور آٹھویں جماعت تک یعنی تین سال یہ کورسز پڑھائے جاتے تھے۔ کلاس ششم کے ہر بچے کو تین تین ماہ یہ تینوں کورسز پڑھنا ہوتے تھے ۔پھر بچے کو اپنے شوق اور ذہنی رجحان کے مطابق کسی ایک کورس کا انتخاب کرکے ساتویں اور آٹھویں میں یہ کورس پڑھنے ہوتے تھے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ طلبا کی اکثریت بجلی کی کلاس یعنی الیکٹرک ورک شاپ میں ہوتی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ الیکٹرک ورک شاپ کے استاد محترم حاجی مقبول الرحمن مرحوم بڑے شفیق استاد تھے اور ان کے پڑھانے کا انداز بھی بہت اچھا تھا البتہ وڈ ورک شاپ اور میٹل ورک شاپ کے دونوں اساتذہ محترم رشید اور محترم ریاض دونوں ہی ذرا سخت تھے آپ سوچیں یہ کیا اسکول تھا ایک طرف آپ کو نارمل پڑھائی کرائی جا رہی ہے دوسری طرف آپ کو فنی تعلیم سے بھی آگاہ کیا جا رہا ہے۔ تیسری طرف آپ کو نیم فوجی تربیت دی جا رہی ہے پھر آپ کو فرسٹ ایڈ کی تربیت دی جا رہی ہے اس فوجی تربیت کا نتیجہ تھا کہ اس اسکول کے تین اسٹوڈنٹس ایئر چیف اور نیول چیف بنے۔ جو اس اسکول کے فارغ التحصیل تھے سیاست، بیوروکریسی، انجینئرنگ اورطب کے شعبہ میں بے شمار اس اسکول کے اولڈ اسٹوڈنٹس ہیں ۔الیکٹرک ورک شاپ میں ڈی سی کرنٹ پر کام سکھایا جاتا تھا۔ہم آج بھی اپنے گھر میں بجلی کا چھوٹا موٹا کام خود کرلیتے ہیں۔ اس زمانے میں لاہور میں صرف ڈی سی کرنٹ ہی ہوا کرتا تھا جس میں ایک تار مثبت+اور دوسری منفی -ہوتی تھی۔اس کا کرنٹ لگنے سے انسان کی موت واقع نہیں ہوتی تھی بلکہ منفی بجلی سے کرنٹ نہیں لگتا تھا ۔ اے سی بجلی تو بعد میں آئی تھی لوہے اور لکڑی کا کام رشید احمد ٹیچر سکھایا کرتے تھے ۔یہ ایک نہایت ہی اچھا سلسلہ تھا بچے نارمل تعلیم کے ساتھ ساتھ منفی تعلیم بھی سیکھتےتھے جو آج اکثر اسکول میں نہیں۔البتہ اب موبائل وغیرہ درست کرنے کا کام سکھایا جاتا ہے باقی تو ٹیوٹا کے ماتحت اس قسم کے تعلیمی ادارے ہیں۔

وڈ ورک شاپ میں لکڑی کا سامان بنانا سکھایا جاتا تھا اور میٹل ورک شاپ میں خرادیئے کا کام سکھایا جا تا تھا یہ پاکستان میں اپنے دور کا بہترین اسکول تھا اب پنجاب کے وزیر اعلیٰ محسن نقوی اور وزیر تعلیم منظور قادر نے اس کا عزم کیا ہے کہ اس تاریخی اسکول کا تشخص بحال کریں گےاور اسے دوبارہ ملک کا بہترین اسکول بنائیں گے۔چلئے کچھ بات سنٹرل ٹریننگ کالج کی کرتے ہیںاور پھر آپ کو آئندہ لاہور کی گلیوں اور بازاروں، کوچوں، کٹڑیوں اور احاطوں میں لے چلیں گے۔ مسٹر ٹولنٹن نے سنٹرل ٹریننگ کالج کو ترقی دینے کے لئے کئی اقدامات کئے ٹولنٹن مارکیٹ کا نام بھی غالباً ان کے نا م پر ہے۔خیر مسٹر ٹولنٹن نے 1905ء میں پہلی پی ٹی کی کلاس شروع کی اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی، ایس اے وی، جے اے وی، کلیریکل کمرشل سرٹیفکیٹ ، سینئر ورناکیولر کلاس، ڈرائنگ ماسٹر کی کلاسیں بھی شروع کر دی گئیں ۔

ہمیں یاد ہے کہ اسکول اور کالج دونوں میں ڈرائنگ کی کلاسوں پر خاص توجہ دی جاتی تھی جب گوروں نے اتنے سارے کورسز ایک ساتھ سنٹرل ٹریننگ کالج میں شروع کرا دیئے تو اس کے لئے اب ایک ماڈل اسکول کی ضرورت تھی ۔جہاں یہ زیر تربیت اساتذہ بچوں کو پڑھا سکیں اور عملی تجربہ بھی حاصل کرسکیں۔

چنانچہ اب لاہور میں ایک ایسے ماڈل اسکول کی ضرورت تھی جو سنٹرل ٹریننگ کالج کی عملی ضروریات پوری کرئے۔ اس وقت پورے لاہور میں صرف سنٹرل ماڈل اسکول ہی واحدتھا ویسے بھی یہ اسکول، کالج کے بالکل ساتھ تھا چنانچہ سنٹرل ماڈل اسکول کو اس کے ساتھ ملحق کر دیا گیا پھر آپ یہ دیکھیں کہ جس زیر تربیت استاد کو کلاس میں بھیجنا ہوتا وہ پہلے سے تیاری کرکے جاتا اور پھر تنقید کرنے کے لئے بھی ایک دو استاد اس کے ساتھ کلاس روم میں بھیج دیئے جاتے کیا بہترین انداز تھا تعلیم دینے کا، کیا اسکول تھا اور پھر اس وقت گورے کس قدر لاہور میں تعلیم کے فروغ کے لئے سرگرم تھے ۔آپ یہ دیکھیں لاہور کے اس تاریخی اسکول میںسنٹرل ٹریننگ کالج کے جو اساتذہ طلبا کو پڑھانے کے لئے جاتے تھے ان کے چار گروپ بنائے جاتے تھے اساتذہ کا ایک گروپ سبق کی جانچ پڑتال کرتا دوسرا تلفظ درست کرنے کا ذمہ دار تھا تیسرا گروپ ادائے مطالب بیان کرتا اور چوتھا تنقیدی معیار پر نظر رکھتا تھا۔

آپ دیکھیں کہ اس زمانے میں گوروں نے طالب علموں کی تعلیم وتربیت کے لئے کیا کیا طریقے اپنائے یعنی وہ زیر تربیت اساتذہ پر بھی پوری پوری نظر رکھتے تھے۔لاہور میں تعلیمی اداروں بلکہ سنٹرل ماڈل اسکول اور سنٹرل ٹریننگ کالج میں پہلی مرتبہ بلیک بورڈ کا استعمال 1905ء میں شروع ہوا یعنی آپ دیکھیں کہ ہمارے ہاں لاہور میں اس سے پہلے جہاں کہیں بھی تعلیم دی جا رہی تھی وہاں بلیک بورڈ کے استعمال کا کوئی رواج نہیں تھا۔مسٹر ٹولنٹن کا خیال تھا کہ بلیک بورڈ پر کسی بھی طالب علم کو زیادہ بہتر انداز میں پڑھائی سمجھ میں آتی ہے پھر کالج میگزین کا آغاز ہوا۔کالج میں نصابی سرگرمیوں کے لئے شکسپیئر سوسائٹی ،ہیٹاریکل اور جیا گریفیکل سوسائٹیز تشکیل کی گئی تھیں، کھیلوں پر توجہ دی گئی پہلی مرتبہ ٹائم ٹیبل اور نصاب بنائے گئے کالج کے ہر طالب علم کے لئے ہفتہ میں دوبار کھیل ضروری کیا گیا۔اور سنٹرل ٹریننگ کالج کی مرکزی عمارت کے اندر ایک بہت بڑا گرائونڈبنایاگیاجس کا اب بیڑہ غرق ہو چکا ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین