آج محترمہ بے نظیر بھٹو کا 63واں یوم ولادت رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں آیاہے۔ مجھے یاد ہے 32 برس قبل 1984ء میں جون ہی کے مہینے میں ماہ رمضان کے دن تھے۔ بی بی لندن میں جلاوطن تھیں۔ واضح رہے کہ موسم گرما میں لندن میں دن طویل اور کم و بیش 18گھنٹے کا ہوتا ہے۔ بی بی باقاعدگی سے روزے رکھتی تھیں۔ جون کے مہینے میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے ڈنمارک کا دورہ کیا۔ کوپن ہیگن میں پارٹی کارکنوں نے ایک جلسۂ عام کا اہتمام کیا تھا جس سے بی بی نے بعد دوپہر خطاب کیا انہوں نے یہ مشورہ نظرانداز کر دیا کہ جلسہ کے پیش نظر روزہ قضا کر دیں۔ انہوں نے معمول کے مطابق روزہ رکھا اور روزہ کی حالت میں لمبی تقریر کی بجائے نصف گھنٹہ کی تقریر کی۔ یہ ان کے عزم اور ارادہ کی نادر مثال تھی۔کوپن ہیگن کے ممتاز روزنامہ ’’پرلنگسک ٹائیڈنڈ‘‘ نے محترمہ سے انٹرویو کے بعد اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا:’’بے نظیر بھٹو نے باوجود اس کے انہوں نے مغرب میں تعلیم پائی ہے اور ہارورڈ آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ اور پولیٹکل سائنس میں ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ نہ صرف مذہبی ہیں بلکہ قرآنی تعلیمات پر بھی عمل کرتی ہیں۔ وہ جنرل ضیا کی طرف سے ’’اسلام کے غلط استعمال‘‘ پر سخت برہم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جس کا انحصار کسی ملک کے قوانین پر نہیں ہوتا۔ انسان اور خدا کے درمیان رشتہ میں کوئی فرد یا شے مداخلت نہیں کر سکتی ۔ ہم سیاستدانوں کا کام ہے کہ انسانوں کے درمیان رشتے گہرے کریں۔ ان کے والد شہید کے الفاظ میں ان کی پارٹی کا پروگرام ’’اسلام ہمارا مذہب ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔‘‘ کیا یہ سب مبالغہ آمیزی ہے؟ ۔‘‘
لندن جلاوطنی کے دوران محترمہ بینظیر بھٹو نے پاکستان میں مارشل لا کے خلاف جمہوری جدوجہد کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے میں انتھک محنت کی۔ انہوں نے لندن میں دو سالہ قیام کے دوران امریکہ اور یورپی ممالک کے ذرائع ابلاغ سے قریبی رشتہ استوار کیا۔ اور وہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز تھیں۔ انہوں نے اپنی ذہانت اور بصیرت کی بدولت ان ممالک کی بااثر شخصیات اور سیاستدانوں کا حلقہ اثر قائم کر لیا۔ لندن اور یورپ کے ہر بڑے اخبار اور میگزین علاوہ ٹیلی وژنوں کو انٹرویو دیئے۔ ٹیلی ویژن چینل 4 اور بی بی سی 2نے ان پر ڈاکومنٹری بنائیں۔ہر بڑے اخبار اور میگزین نے ان پر مضامین لکھے اور انہیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ بی بی کی جدوجہد او رسیاسی سرگرمیوں کا یہ شاندار دور تھا۔ اور اس کا نقطہ عروج 10اپریل 1986ء کو ان کی لاہور آمد پر فقید المثال استقبال تھا۔ جہاں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے درجنوں نمائندے اور ٹی وی ان کے استقبال کی کوریج کے لیے لاہور میں موجود رہے۔ اور بی بی عالمی سیاسی افق پر چھا گئیں۔ یہ ایک خوشگوار حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے اخبارات اور ٹیلی وژن رپورٹر ان کی واپسی کی کوریج کے لیے جہاز میں ان کے ہمراہ آئے تھے ان کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی۔1988ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کی کامیابی کے موقع پر یہی مناظر تھے اور دنیا کے اخبارات اور ٹیلی وژن نے فتح کے جشن کی بھرپور تشہیر کی۔ محترمہ نے دنیا میں پہلی مسلم خاتون وزیراعظم منتخب ہو کر تجسس کا نیا باب وا کر دیا تھا۔ انہوں نے پہلے دورِ حکومت میں دنیا کے معتبر اور اہم ذرائع ابلاغ کو ایک سو سے زائد انٹرویو دیئے۔
وزیراعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1989میں صدر جارج بش کی دعوت پر امریکہ کا سرکاری دور کیا۔ اس دورہ کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ بی بی اپنے نومولود بیٹے بلاول کو ساتھ لے کر گئیں۔ واشنگٹن ایئر پورٹ پر میڈیا کے نمائندے موجود تھے۔ وزیراعظم ننھے بلاول کو گود میں لے کر جہاز سے باہر آئیں تو ٹیلی وژن اور اخبارات کے نمائندوں کے لیے یہ دھماکا خیز منظر تھا ۔ جسے پوری دنیا نے اسکرین پر دیکھا او رامریکی خواتین میں یہ مقبول موضوع بن گیا۔وزیراعظم پاکستان کی مامتا کی محبت کا یہ نظارہ دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوئیں اور ماں کی محبت کا یہ سحر انگیز نقش ان کے دلوں پر ثبت ہو گیا۔ اسی دورہ کا سب سے اہم ترین پہلو محترمہ بے نظیر بھٹو کا امریکی کانگریس میں پرزور خطاب تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں جب کہا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے تو ہال تالیوں سے گونج گیا۔ ان کی متاثر کن تقریر پر ارکان نے مسلسل تالیاں بجائیں اور کھڑے ہو کر احترام کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان کے لیے یہ ایک شاندار دن تھا۔ یہ بے نظیر بھٹو کا ہی دن نہیں تھا بلکہ پاکستانی وفد کے ارکان کا بھی دن تھا۔
امریکی صدر جارج بشن کے عشائیہ میں بھی بی بی مہمانوں کی توجہ کا مرکز تھیں اور جارج بش کی استقبالیہ تقریر کے بعد بی بی نے اُسی انداز میں امریکی صدر کا شکریہ ادا کیا جسے بے حد سراہا گیا۔اس دورہ میں اپنی دیگر مصروفیات کے علاوہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز کے ادارتی بورڈ کے ارکان سے اہم ملاقات کی۔ واشنگٹن پوسٹ کی مالکہ کی سربراہی میں پانچ رکنی وفد وزیراعظم کی سرکاری قیام گاہ پر ملنے آیا۔ نیویارک ٹائمز کی دعوت پر ادارتی بورڈ سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ امریکہ کے دو بڑے اخباری ادارے کے ارکان کے ساتھ یہ ملاقاتیں بڑی بامقصد اور مفید تھیں۔ وزیراعظم پاکستان نے انہیں پاکستان کو درپیش مسائل اور خطہ کی صورت حال سے پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا۔ یہ کسے علم تھا کہ ننھا بلاول جو اپنی والدہ کے ہمراہ امریکہ کے دورہ میں ساتھ تھا۔ وہ مستقبل میں اسی طرح بی بی شہید کا پرتو ہوگا۔ جس طرح بے نظیر اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو شہید کا پرَتو تھیں۔ آج بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلزپارٹی کا چیئرمین اور اپنی والدہ بے نظیر بھٹو شہید کی وراثت کا امین ہے۔ وہ بی بی شہید کے مشن کا پرچم تھام کر ان کے نقشِ قدم پر اسی جرأت اور بہادری کے ساتھ چل رہا ہے۔ اس کی حالیہ سرگرمیوں نے نہ صرف کارکنوں کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی کی ساکھ کی بحالی کی امید بھی پیدا کر دی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین نوجوان ہے آج کل اس کے ٹوئٹ کا بڑا شہرہ ہے ۔ بلاول کے ٹوئٹ کے تیر ٹھیک نشانہ پر لگ رہے ہیں او رمخالفین کی چیخیں سنائی دینے لگی ہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی والدہ بی بی شہید کی طرح پاکستان اور وطن کی محبت کے جذبہ سے سرشار ہیں۔ بلاول کی شکل میں یہ احساس ہوتا ہے، بی بی شہید آج بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تیسری نسل کے ساتھ میری رفاقت کا سفر بھی جاری ہے۔