ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے تھانہ ترنول میں درج مقدمے میں شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کی درخواست ضمانت خارج ہونے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سِپرا نے 3 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔
فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی گرفتاری کے بعد 250 سے 300 مظاہرین نے جی ٹی روڈ بلاک کی۔ مظاہرین نے حکومت مخالف نعرے لگائے اور پولیس پر حملہ کیا تھا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ مظاہرین کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی، پارٹی رہنما اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کے کہنے پر احتجاج ہوا۔
عدالت نے قرار دیا کہ مظاہرین نے پولیس کو زخمی کیا اور سرکاری گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ریاست کی تنصیبات اور سرکاری نمائندگان کو نقصان پہنچانے کا حق کسی کو نہیں۔ 9 مئی کو ملک بھر میں احتجاج ہوا جو پُرامن نہیں تھا اور پُرتشدد بنا۔
اس میں یہ بھی کہا گیا کہ قانون پر عملدرآمد کرنے والی ایجنسیوں اور فوجی تنصیبات پر پلان کے مطابق حملہ کیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ مکمل تحقیقات کے بعد معلوم ہوگا کہ کیسے پُرتشدد وقوعہ پیش آیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ اسد عمر اور شاہ محمود قریشی مقدمے میں نامزد ہیں جن کے کردار واضح ہیں۔
اس میں یہ بھی کہا گیا کہ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر پارٹی میں سینئر عہدیداران کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں کی ٹوئٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ پبلک کو ریاست کے خلاف اکسایا گیا۔
تفتیش مکمل ہونا باقی ہے اور موجودہ صورتحال میں ضمانت منظور کرنا درست نہیں ہوگا، احتجاج کرنا آئینی حق ہے لیکن ریاست احتجاج کو محدود کر سکتی ہے۔