خدا کا شکر ہے کہ عزت رہ گئی ،اگر گڑھی خدا بخش میں دوران تقریر ٹیلی پرومپٹر خراب ہو جاتا تو قائد عوام کے نواسے،دختر مشرق اور ایشیاء کے ’’نیلسن منڈیلا‘‘ کے ہونہار صاحبزادے ’’ٹھس‘‘ہو جاتے۔
اس معاملے کو محض مخالفین کی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کہہ کر آگے بڑھ جانا درست نہیں ہے۔ کیوں نہ ایک منظر کے ذریعے اس کو واضح کیا جائے، گڑھی خدا بخش میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کا دن، ہزاروں کا مجمع اپنے بلاول کو سننے کیلئے بے تاب ،نوجوان مقرر کی تقریر شروع، لوگ اپنی مرحوم لیڈر کو یاد کرتے ہوئے آنسوئوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں اور ایک دم تقریر کی روانی الٹ پلٹ،پھر نوجوان
قائد خاموش..... عوام میں سرگوشیاں شروع،کیا ہوا جی..... ٹیلی پرومپٹر خراب ہو گیا..... یہ کیا ہوتا ہے جی ؟؟؟
گڑھی خدا بخش میں جمع ہزاروں لوگوں میں سے کتنے لوگوں کو ٹیلی پرومپٹر کا استعمال تو دور کی بات اس لفظ کا بھی پتہ نہیں ہو گا؟ ان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ گرجنے اور برسنے والا ہمارا لیڈر نہیں بلکہ اصل کمال تو ٹیلی پرومپٹر نے دکھایا۔ عوامی سیاست کے پھٹے پرانے لباس میں مخمل کا ٹکڑا لگانا کوئی بھلا نہیں لگا۔
اس ٹیکنالوجی کے بارے میں مغربی ممالک کے رہنمائوں کی مثالیں اپنی جگہ لیکن پاکستانی انداز سیاست سے ان کا کوئی تعلق اس لئے نہیں بن پاتا کہ وہاں کی سیاست کا رنگ بالکل مختلف ہے ، دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہاں موجود تمام افراد کو اس بات کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ تقریر کیسے کی جا رہی ہے لیکن کیا بلاول بھٹو زرداری یا ان کی ٹیم میں اتنی اخلاقی جرأت تھی کہ وہ تقریر سے پہلے کہہ سکتے کہ تقریر میں ٹیلی پرومپٹر کا استعمال ہوگا یا بعد میں ہی کہہ دیا جاتا کہ استعمال ہوا ہے۔ اپنی طرف سے تو جادوگری کرنے کی پوری کوشش کی گئی جو کہ ناکام رہی۔ اگر ٹیکنالوجی کے اس عظیم شاہکار کے استعمال سے کوئی ’’نادان‘‘ پردہ نہ اٹھاتا تو کیا یہ بات بتائی جاتی؟ پھر تو بلاول بھٹو زرداری کے زبان و بیان کی روانی سے بھرپور خطاب کی تعریفوں سے آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا اور اس کامیابی کا کریڈٹ ان کی ’’ دن رات کی بھرپور محنت ‘‘کے نام کیا جاتا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت بھی ٹیلی پرومپٹر کا نتیجہ تھی؟ بالکل بھی نہیں۔ عوام میں ان کی مقبولیت ایک اہم وجہ فی البدیہہ تقریر ہی تھی،اسی طرح دوسری طرف محترمہ بے نظیر بھٹو کے ابتدائی دور میں ان کی ٹوٹی پھوٹی اردو اس مصنوعی تقریر سے کہیں زیادہ اثر رکھتی تھی کیونکہ وہ زبان و بیان اور تقریر کی روانی کے لئے ٹیکنالوجی کے انتظامات کرنے کے بجائے عوام کے دل کی بات کرنے پر زیادہ توجہ دیتی تھیں یہی وجہ ہے کہ ان کی وہ تقاریر عوام میں بے حد مقبول تھیں کیونکہ وہ زبان کی روانی اور فصاحت و بلاغت سے زیادہ عوام کے جذبات کی ترجمانی کو اہمیت دیتی تھیں جو کہ فی البدیہہ تقریر سے ہی ہوتی ہے خواہ اس میں فقروں کی ترتیب اور زبان کی روانی کم ہی کیوں نہ ہو۔
ٹیلی پرومپٹر کے استعمال کی محض مخالفت ہرگز نہیں بلکہ معاملہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کے جوش و خروش سے بھرپور سیاسی جلسوں میں ٹیلی پرومپٹر کا استعمال لیڈر کے مصنوعی پن کا اظہار ہے جبکہ ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی خبروں کو روانی سے پڑھنے والوں پر اس لئے اعتراض نہیں ہوتا کہ وہ عوامی جلسے سے مخاطب نہیں ہوتے بلکہ وہ اطلاعات کی بہتر اور عمدہ طریقے سے فراہمی کا کام سر انجام دینے کیلئے اس کا استعمال کرتے ہیں ۔سیاست دان اور اینکر میں کچھ تو فرق رہنا چاہئے۔
ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس کے استعمال سے مقرر اپنی تقریر زیادہ بہتر انداز میں کر سکتا ہے، اگر یہی دلیل ہے تو اس سے بھی آگے بڑھتے ہیں، دنیا بھر میں lip-syncing (لپسنگ)کا طریقہ بھی بہت مقبول ہے۔ جس میں پہلے سے ریکارڈ کردہ گانے یا مکالمے کو نشر کر دیا جاتا ہے اور گلوکار صرف ہونٹ ہلاتا رہتا ہے۔ اللہ نہ کرے کہ بلاول بھٹو زرداری کی ٹیم (جو کہ ٹیکنالوجی پر حد سے زیادہ’’ عبور ‘‘رکھتی ہے) لپسنگ جیسا کوئی ’’اہم اور مفید ‘‘مشورہ بلاول کو دے کہ اس پر عمل کرنے سے تقریر کی ایڈیٹنگ بھی اچھی ہو جائے گی، دھواں دار فقرے بھی شامل اور آپ بھی محنت سے مزید بچ جائیں گے۔