• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے پاکستان میں دو چھانگا مانگا ہوگئے۔ ایک تو کراچی میں میری دوست فوزیہ وہاب کے بیٹے نے کیا یا کروایا گیا۔ دوسرا مسلم لیگ (ن) کی جنرل باڈی اجلاس میں ریوڑیاں اپنے اپنوں کو دی گئیں۔ رہا سائیکلون کا حملہ۔ وہ تو ہماری غریب بستیوں میں بدین، سجاول اور کیٹی بندر تک کے لوگوں کے صرف پیر بھگوکر، ان کی غربت کو سلام پیش کر کے چلا گیا۔ کلفٹن کی سمت تو اس نے آنکھ اُٹھا کے بھی نہیں دیکھا کہ اسے یقین تھا یہ امیروں کی بستی ہے۔ ان کے پاس جانا مجھے زیب نہیں دیتا۔

رہا روس سے تیل بھرا جہاز کراچی کے سمندر میں پہنچنے کا مسئلہ۔ خوش فہموں کیلئے یہ ادائیگی جو چینی کرنسی میں کی گئی ہے شایدکچھ معانی رکھتی ہو۔ مجھے تو ’’شہباز اسپیڈ‘‘ ایک طرف صبح سات بجے، مختلف پروجیکٹس کا افتتاح کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہ الہ دین کے جن کی طرح کام کر رہا ہے۔‘‘ جگہ جگہ تختیاں لگا رہا اور بدلوا رہا ہے۔ مگر بجٹ میں پورے وقت ’’ڈاریوٹوپیا‘‘پر اعتماد کرتے ہوئےبلاول کو بھی ناراض کر بیٹھا ہے۔ پھر نیند سے روٹھ کر شاید غنودگی میں ’’نواز شریف چوتھی بار‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے سیاسی غلطی یہ کر دی ہے کہ ملک میں تو ابھی انتخابات ہونے ہیں۔ ابھی تو منہ بند کئے نام نہاد سیاست دانوں کی آنیاں اور جانیاں دیکھنے کے ساتھ مسلسل گرتی معیشت میں عوام کا کتنا حصہ ہے اور عالمی معاشی اداروں کا، پاکستان سے محبوبیت کا رخصت ہونا کہ سیاسی مجہول فیصلے جس میں عدلیہ بھی شامل ہے، قوم کو اس انجام پر پہنچا رہی ہے کہ یونان کی جانب، 500 پاکستانیوں کا جانے کی کوشش میں ڈوب جانا۔ المیہ نہیں معاشی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے یہ سارے جوان ہمارے چھوٹے شہروں سے تعلق رکھتے تھے۔ والدین سے زمینیں اور بچائے ہوئے پیسے، ٹریول ایجنٹوں کو دے کر سنہرے مستقبل کی تلاش میں جان گنوا بیٹھے۔ اب ہمارا میڈیا روتے کرلاتے خاندانوں کو دکھاتے ہوئے کسی بڑے سیاسی مہرے کو یہ کہتے نہیں دکھا رہا کہ دراصل یہ ہماری معاشی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہمارے چھوٹے شہروں کے لوگوں کے میٹرک پاس اور فیل بچے، سمجھتے ہیں کہ مغرب کی دنیا میں اللہ زیادہ مہربان ہے۔ وہ تو سمندر پہ جا کر لیٹ کر بیئر پی رہے ہوتے ہیں۔ کام وام، شاید کوئی نہیں۔ ان کو تو کسی بھائی بند نے یہ بھی نہیں سمجھایا تھا کہ ان قوموں کے سارے مرد اور عورتیں صبح ساڑھے چار بجے گھر سے نکل کر کبھی بس اور کبھی ٹرین پر سفر کر کے ساڑھے سات بجے سے پہلے دفتر پہنچ کرشام پانچ بجے تک جان مار کے کام کرتے ہیں۔ نہ ان کو اپنے دفتر میں بیٹھ کر چائے اور سگریٹ پینے کی اجازت ہے وہ لوگ ہماری طرح تھڑے کی سیاست نہ میڈیا پر کرتے ہیں اور نہ کسی بار یا کیفے میں، ہفتے کے آخری دنوں کو وہ آرام کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ وہاں تو پیٹرول بھی ہفتہ اتوار کے دن مہنگا ہو جاتا ہے۔ ہم مسلسل مہنگائی کا رونا روتے، صبح دفتر کوئی دس بجے پہنچتا ہے، کوئی بارہ بجے، پوچھنے والا کون ہے۔

اب آیئے ذرا بےنظیر انکم سپورٹ کی تفصیل بی بی شازیہ مری سے پوچھ لیں، یہ بتائیں سپورٹ کی رقم بہت احسن اقدام ہے۔ مگر تفصیل تو بتائیں کہ خاندان اس رقم سے گھر کی روٹی کا انتظام کرتے ہیں کہ کوئی کاروبار، زراعت کہ صحت کے لئےکوئی سہولت؟۔ یہ تو اچھا ہے کہ کسی غریب خاندان کو دوسال تک، اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کیلئے امداد دی جانی چاہئے پھر نئے دیگر خاندان منتخب کر کے، ان کی مالی مدد کی جائے۔ زرعی ضروریات کے علاوہ، خاندانی منصوبہ بندی کیلئے مدد کے علاوہ ہر یونین کونسل میں صحت مراکز کو سپورٹ کیا جائے۔ اب آیئے ایک اور دکھتی رگ کی طرف۔ پچھلے سال کے سیلاب سے بے گھر لوگوں کو واپس ان کے گھر یا رقم جس سے وہ چھت تو ڈال لیں، میں سندھ گئی وہاں اسٹاف نے کہا ’’ہم لوگوں کے گھر بنانے میں مصروف ہیں۔ این آر سی پی نے کہا‘‘ ورلڈ بینک نے فنڈز دیئے ہیں ہم گھر بنا کر دے رہے ہیں۔ اب بڑے غصے میں بلاول میاں بول رہے ہیں کہ بجٹ میں سیلاب زدوں کیلئے کوئی رقم نہیں ہے۔ یہ کیا ماجرا ہے۔

اب ایک اور نازک مگر تکلیف دہ مسئلہ۔ حکومت ہر دفعہ لبیک والوں سے صلح نامہ کرلیتی ہے، ان کو الیکشن میں بھی حصہ لینے دیتی ہے آخر یہ سب کب تک چلے گا۔ یہ فنڈز بھی اور قربانی کی کھالیں بھی جمع کرتے ہیں۔موجودہ سیاسی صورت حال دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ملک بھر میں سیاسی احتجاج کی جگہ تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ اس لئے لوگ انڈر گرائونڈ غیر قانونی فضا میں شامل ہو کر دھما چوکڑی مچاتے ہیں، پردہ تب اٹھتا ہے جب نو مئی کا واقعہ ہو جاتاہے، یہی صورتحال گلگت اور قبائلی علاقوں میں درپیش ہے۔ ایک طرف سرائیکی والے، دوسری طرف شمالی علاقہ جات کے لوگ صوبے کا درجہ مانگ رہے ہیں۔ سارے ملک کے لوگ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور ان سے معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں سے پیدا ہونیوالی ضرورتوں کو کیسے پورا کریں۔

پاکستان میں ہرروز فری اسپیچ والے حسن عسکری کی طرح پکڑے جاتے ہیں۔ ان کے تو ابا آرمی میں تھے دوسال بعد باہر آگئے۔ دیگر لوگوں کو دن رات ہم لاپتہ کہتے ہیں۔ اب تو صحافیوں کی قطار لگی ہے۔ دنیا کے سارے ملک آزادی صحافت کی دہائی دے رہے ہیں۔ ہم کانوں میں تیل ڈالے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب تو طالبان بھی کچھ تبدیلیوں کیلئے تیار ہیں۔ حکومت توجہ دے تو فیس بک پر واہیات بند ہو سکتی ہیں۔تاہم بھڑوں کے چھتے میں کون ہاتھ ڈالے۔

تازہ ترین