بنی نوع انسان نے مساوات اور معاشی ترقی کے ارادے سے بہت سے ادارے قائم کئے جیسے اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ڈبلیو ٹی او، ڈبلیو سی او اور دیگر ،سماجی و اقتصادی تفاوت کو دور کرنے کیلئے لیکن کوئی ٹھوس نظام نہ آسکا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے عالمی برادری پر طاقت کی سیاست کا غلبہ ہے اور ہر روز ذاتی مفادات کیلئے انسانی جان، عزت اور وقار کو قربان کیا جارہاہے۔ خود غرضی قومی اور بین الاقوامی اداروں کی غالب خصوصیت بن چکی ہے۔ ذاتی فائدے اور مفادات کے پیش نظر عظیم تر بھلائی کے منصوبوں کو ہمیشہ ایک طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جو اس رجحان کو واضح کرتی ہیں، اہم سوال یہ ہے کہ اگر یہ طرز عمل جاری رہا تو انسانیت کیلئے آگے کیا ہوگا۔ پاکستان کے معاملے میں یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہے کہ آیا اسے بین الاقوامی نظام کی غلامی اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کی سیاست کا نشانہ بننا ہے یا وہ زمین کی گہرائیوں سے اٹھ کر خود انحصاری اور تکمیل کی سمت جانا چاہتا ہے۔
دنیا کی 5 فیصد آبادی دنیا کی 80 فیصد سے زیادہ دولت اور وسائل پر قابض ہے۔ اس 5فیصد میں جیف بیزوس، وارن بفے، بل گیٹس اور دیگر ارب پتی شامل ہیں۔ سب سےاہم یہ جاننا ہے کہ ان شخصیات نے یہ بے پناہ دولت سراسر ذہانت اور سرمایہ دارانہ معیشت میں کاروباری منصوبوں پر عمل درآمد کے ذریعے حاصل کی یا کسی اور ذریعے سے؟۔ ان دولت مند افراد میں سے کوئی بھی مساوات پسند اور سوشلسٹ معاشرے سے تعلق نہیں رکھتا۔ یہ بھی واضح ہے کہ ان 5فیصد دولت مندوں کے پاس واضح طور پر ان کی ضرورت سے زیادہ دولت ہے، یہ دولت اس سے کہیں زیادہ ہے جو وہ اپنی زندگی میں خرچ کر سکتے ہیں۔ یہ دولت صرف ان مالیاتی اداروں کیلئے، سرمایہ کاری کے مواقع میں، لگائی جائے گی جو پہلے سے ہی امیر لابیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ان دولت مندوں کے پیسے کو استعمال کرتے ہوئے اپنی دولت میں اضافہ کریں گے اور اس کا تھوڑا سا حصہ ضرورت مندوں، غریبوں اور پسے ہوئے لوگوں کی بہتری کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ دنیا کی آمدنی میں عدم مساوات روز بروز بڑھ رہی ہے۔
2023تک، 70سے زائد ممالک ایسے ہیں جو عالمی مالیاتی اداروں کے قرضے ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان ایشیا میں سب سے زیادہ مقروض ملک ہے۔ ان تمام 70ممالک میں آئی ایم ایف نے زیادہ شرح سود پر بیل آؤٹ قرضے فراہم کئےنہ صرف قرضوں کے پیکیج سود کے ساتھ فراہم کئے جاتے ہیں، بلکہ قومی حکومتوں کو اپنے فیصلے خود کرنے کیلئے اپنی قومی سالمیت تک سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ حکومتوں کو ٹیکس میں اضافہ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ قرض وقت پر سود کے ساتھ ادا کیا جا سکے۔ عوام اور کاروباری اداروں کو دی جانے والی سبسڈی کو کم کروایا جاتا ہے جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے ، صنعت مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقت کھو دیتی ہے۔ یہاں تک کہ برآمدی شعبے بھی IMF کی ساختی شرائط سے مستثنیٰ نہیں ہوتے ۔ اپنی پوری تاریخ میں، آئی ایم ایف نے کبھی کسی قوم کو مالی بحران سے نہیں نکالا، بلکہ اس نے معاشی حالات کو مزید خراب کیا جس سے صرف مختصر مدت کیلئےبہتری آتی رہی۔ آئی ایم ایف ایک ایسا ادارہ ہے جسے مغربی ممالک خصوصاً امریکہ چلاتاہے ۔ ایک طرح سے آئی ایم ایف ایک سیاسی اور مالیاتی ادارہ ہے۔ ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک کو اس وقت بھی کوئی قرض یا امداد نہیں دی جاتی جب وہ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ضوابط کی تعمیل کرتے ہوں۔ آئی ایم ایف درحقیقت غریب قوموں کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتاہے۔
طاقت، دولت اور پیسے کے اس کھیل میں سب سے زیادہ نقصان عوام اور غریب طبقے کاہوتا ہے۔ آئی ایم ایف سے اس وقت رابطہ کیا جاتا ہے جب ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنے واجبات ادا کرنے کی سکت نہیں رہتی۔ حکومتیں اپنی نا اہلی، بدعنوانی ، قومی انسانی اور غیر انسانی وسائل کی بدانتظامی کے ذریعے ملکی اور عالمی نادہندگی کے اس مقام تک پہنچ جاتی ہیں۔ جب آئی ایم ایف سے رجوع کیا جاتا ہے تو اس کا شکار حکومت نہیں ، عوام ہوتےہیں۔ آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے بعد، حکومت ٹیکسوں میں اضافہ کرتی ہے۔ کاروباری، باری باری اپنی مصنوعات اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں جس کا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑتاہے۔آئی ایم ایف سے ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں مارکیٹ پر افراط زر کا غلبہ ہوتا ہے کساد بازاری مکمل طور پر تباہی میں بدل جاتی ہے۔ غربت کی بڑھتی سطح ، کاروباری ترقی اور انسانی ترقی میں فنڈز کی کمی ملک کی مزید تنزلی اور ’’برین ڈرین‘‘ کا باعث بنتی ہے، جس سے معیشت مکمل طور پر تباہ ہو جاتی ہے۔ یہ ہے آئی ایم ایف کا معمہ۔
پاکستان کیلئےیہ موقع ہے کہ آئی ایم ایف کے جال سے بچے،خود کفالت کاروبار اور انسانی وسائل کی ترقی پر انحصار کرے۔ جیو اسٹرٹیجک وسیع مواقع موجود ہیں۔قرضوں اور امدادی پیکیجوں کے طوق پاکستان کی مدد نہیں کر سکتے، یہ پاکستانی عوام اور ان کی ذہانت کی توہین ہے۔ ضروری ہے کہ اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے ورنہ معاشی تباہی کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے گا۔ ساتھ بیٹھنے خود انحصاری اور آگے بڑھنے کے راستے پر توجہ دینےکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
(مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)