• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے سابق فوجی سربراہ ، چیف ایگزیکٹو کے طور پر میاں نواز شریف کے بھاری مینڈیٹ والے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے صدر مملکت جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی فوج ان کے خلاف درج ہونے والے غداری کے مقدمے سے پریشان ہے اور ساری فوج ان کی حمایت میں ان کے پیچھے کھڑی ہے۔ اگر مقدمہ یہ ہوتا کہ ساری فوج سابق جرنیل پرویز مشرف کے پیچھے کھڑی ہے یا نہیں تو دلائل او کوائف سے ثابت کیا جا سکتا کہ ساری فوج ان کے پیچھے کھڑی ہے یا وہ ساری فوج کے آگے کھڑے ہو گئے ہیں؟
فوج کے ترجمان ادارے ’’آئی ایس پی آر‘‘ کی جانب سے خلاف معمول اس دعوے کے بارے میں کچھ کہنے، تصدیق یا تردید کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کی گئی ہے جس کے بارے میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پریشان ہیں۔ مشرف کے دعویٰ کے بارے میں فوجی مؤقف اور پوزیشن واضح نہیں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے خاموشی کو نیم رضا بھی سمجھا جا سکتا ہے ۔ مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ’’آئی ایس پی آر‘‘ والے اس دعوے کو کوئی اہمیت ہی نہ دے رہے ہوں۔ حکومت کے ترجمان وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کا کہنا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف عوام کو گمراہ کرنے کے علاوہ پاکستانی فوج کو بھی خواہ مخواہ خجالت میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
فوج کے سابق سربراہ جنرل اسلم بیگ ، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل اور دیگر بہت سے سابق سینئر فوجی افسران نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے مذکورہ بالا دعوے کو گمراہ کن قرار دیا ہے جو بہت حد تک قرین قیاس لگتا ہے۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی بھی پوری کوشش لگتی ہے کہ فوج کے نئے سربراہ کو اس معاملے میں دخل انداز ہونے پر مجبور کیا جائے۔ پرویز مشرف کا فرمان ہے کہ ’’مصیبت میں ہوں دیکھتے ہیں کہ نئے آرمی چیف پرانے آرمی چیف کو مصیبت سے باہر نکالنے کے لئے کیا کرتے ہیں۔ کہاں تک جاتے ہیں۔ یقینی بات ہے کہ نئے آرمی چیف وہاں تک تو ہرگز نہیں جائیں گے جہاں تک سابق آرمی چیف چلے گئے تھے مگر شاید وہ اپنے طور پر کسی ’’مک مکا‘‘ کی کوشش کریں۔ عین ممکن ہے کہ پاکستان کے کچھ لوگوں نے یہ سوچنا یا فکر مند ہونا شروع کر دیا ہو کہ فوج کے موجودہ سربراہ فوج کے سابق سربراہ کو ملکی آئین، دستور سے غداری اور اپنے عہدہ کے حلف کی خلاف ورزی کی سزا سے بچانے کے لئے کیا کرتے ہیں۔ کیا کر سکتے ہیں اور کہاں تک جا سکتے ہیں۔ اعتدال سے کام لیں گے یا سابق فوجی سربراہ کی طرح ’’انتہا پسندی‘‘ کا مظاہرہ کریں گے؟
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے کہا ہے کہ وہ آرمی چیف سے ملاقات کے لئے نہیں کہیں گے وہ خود ملنا چاہیں تو اعتراض نہیں ہو گا۔ سعودی عرب اور دیگر ممالک میرے لئے اچھا سوچ رہے ہیں طالبان اور القاعدہ سے خطرہ ہے۔ اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ سابق جرنیل پرویز مشرف صرف پاکستان کے فوجی سربراہ کی مدد ہی نہیں امریکہ بہادر کی توجہ بھی چاہتے ہیں اور شاید اسی لئے فرمایا ہے کہ فوج ان کی آخری امید نہیں ہے۔ کچھ لوگ ڈاکٹر علامہ پروفیسر طاہر القادری کے نئے ڈرامے کے ڈانڈے بھی جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے سے ملانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں
نتھا سنگھ اینڈ پریم سنگھ
ون اینڈ دی سیم تھنگ
والا معاملہ بھی ہو سکتا ہے شاید! ہو سکتا ہے جیسے ہر پپو یار کو تنگ کرنے کے لئے ایک اور پپو یار ہوتا ہے ویسے ہی ہر ڈرامے کو کامیاب بنانے کے لئے ایک اور ڈرامہ ہوتا ہے۔
تازہ ترین