• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ تصور کئے جاتے ہیں۔مسلم لیگ ن میں ایک مخصوص گروپ رائے رکھتا ہے کہ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہیں جاتے۔پارٹی کی اندرونی میٹنگز میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنے کے مشورے دیتے ہیں۔ان پر تنقید کی جاتی ہے کہ 13جولائی 2018کواگر شہباز شریف مال روڈ پر نکلنے والے قافلے کا رخ نہ موڑتے تو شاید اقتدار کی ہواؤں کا رخ بھی مسلم لیگ ن سے تبدیل نہ ہوتا۔ان کی رائے ہے کہ ا گر مال روڈ سے ہوتا ہوا مسلم لیگ ن کا قافلہ کینٹ میں داخل ہوکرلاہور ائیر پورٹ پہنچ جاتا تونوازشریف کی گرفتاری کو ناکام بنایا جاسکتا تھا۔کہا جاتا ہے کہ شہباز شریف کی دفاعی پالیسی سے مسلم لیگ ن کو نقصان پہنچا ہے۔وگرنہ مسلم لیگ ن کیلئے اقتدار کا حصول کوئی مشکل نہیں تھا۔ان کے ناقدین کا خیال ہے کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد بھی نہیں لانی چاہئے تھی ،عمران کو اس کے اپنے وزن سے گرنے دینا چاہئے تھا۔لیکن یہ سب باتیں تصویر کا ایک رخ ہیں،تصویر کا دوسرا رخ کچھ اور بتاتا ہے۔چند روز قبل پاکستان کی صف اول کی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک سینئر افسر سے کھانے پر ملاقات ہوئی۔اسی دوران ملک کے ایک انتہائی اعلیٰ افسر بھی تشریف لے آئے ۔پاکستان کا سیاسی منظر نامہ کھانے کی میز پر زیر بحث تھا۔متعلقہ افسر کہنے لگے کہ عمران خان نے 9مئی کے سانحے کی منصوبہ بندی کرکے بہت بڑی سیاسی غلطی کی ہے۔وہ مزید کہنے لگے کہ جو کچھ عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ 9مئی کے بعد ہوا ہے،ویسے یہ سب کچھ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہونا تھااگر وہ 13جولائی کو کینٹ اور ائیر پورٹ جیسے حساس علاقے میں داخل ہوتی۔وہ افسر میری طرف دیکھ کر کہنے لگے کہ تمام مسلم لیگیوں کو شہباز شریف کا مشکور ہونا چاہیے کہ انہوں نے اپنی پارٹی اور تمام ورکرز کو ایسے حالات میں نہیں دھکیلا،جس سے اداروں کو مسلم لیگ ن کے خلاف سخت کارروائیوں کا جواز مل جاتا۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ عمران دور میں بدترین انتقامی کارروائیوں کے باوجود شہباز شریف نے اپنی جماعت کو اداروں سے ٹکراؤ سے دور رکھا۔کیونکہ اگر شہبا ز شریف فہم و فراست کو مظاہرہ نہ کرتے تو واقعی 13جولائی کو مسلم لیگی قافلے ائیر پورٹ جانے کیلئے کینٹ میں داخل ہوجاتے توپھر لاکھوں لوگوں کے ہجوم کو کوئی قابو نہ کرسکتا۔ہر جگہ شرپسند اور سازشی عناصر موجود ہوتے ہیں،سانحہ ماڈل ٹاؤن کی مثال ویسے بھی شہباز شریف کے سامنے تھی۔اس لئے اس روز بھی اگر کوئی شرارت ہوجاتی تو مسلم لیگ ن کو بہت بڑے سیاسی نقصان کا اندیشہ تھا۔باقی جہاں تک کہا جاتا ہے کہ عمران خان کے خلاف عد م اعتماد کی تحریک لانا بہت بڑی غلطی تھی تو یاد رکھیں کہ عمران کی بیساکھیوں نے اسے کبھی اس کے اپنے وزن سے گرنے نہیں دینا تھا۔بلکہ وہی فیض گروپ عدالتی سپورٹ کے ذریعے ہر حال میں عمران کو وزیراعظم برقرار رکھتا اور نومبر میں اپنی پسند کی تعیناتی کرواکر عمران پروجیکٹ کو مزید پانچ سال کیلئے ملک پر مسلط رکھتا۔جس ٹولے نے مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت کو چلنے نہیں دیا،جو گروپ مسلم لیگ ن کے وزیراعظم کو آئے روز ناکام کرنے کی سازش میں لگا رہتا ہے ،کیا کوئی تصور کرسکتا ہے کہ اگر مسلم لیگ ن اپوزیشن بنچوں میں بیٹھی ہوتی تو اس گروپ کا راستہ روک سکتی تھی۔اس لئے شہباز شریف اور دیگر اتحادیوں کا تحریک عدم اعتمادلانے کا فیصلہ بالکل درست اور وقت کے عین مطابق تھا۔باقی عمران نے جو کچھ ملک کے ساتھ گزشتہ چار سال میں کیا ہے،اگر وہ مزید کچھ وقت بھی گزار لیتا تو جب بھی کوئی جمہوری وزیراعظم اقتدار سنبھالتا تو اسے ان تمام مسائل کا سامنا ضرور کرنا پڑتا،جو آج شہباز شریف کو کرنا پڑرہا ہے۔کیونکہ عمران خان نے صرف غلط انتظامی فیصلے اور بیڈ گورننس نہیں کی بلکہ اس نے پاکستان کی معاشی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔اس لئے عمران کے بعد نئی آنے والی حکومت کیلئے ایسے چیلنجز کا سامنا کرنا فطری تھا۔یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ اگر عمران خان پانچ سال پورے کرکے اپنے وزن سے گرتا تو نئی آنے والی حکومت کو ایسے سخت معاشی فیصلے نہ کرنا پڑتے،بلکہ اگر تحریک انصاف مزید ایک سال اقتدار میں گزار لیتی تو شاید اس سے دس گنا سخت فیصلے کرنا پڑتے جو آج شہباز شریف اور ان کی ٹیم نے کیے ہیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کو جتنا نقصان عمران خان کے دور اقتدار میں پہنچا ،اس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔مگر شہباز شریف کی دن رات محنت نے پاکستان کو خارجہ محاذ پر بہت کامیابی دی ہے۔میںشہباز شریف کو ایک طویل عرصے سے جانتا ہوں،مگرحالیہ پیرس سمٹ میں ان کی تقریر الفاظ کے چنائو کا ایک شاہکار نمونہ تھی۔پاکستان کے کسی ہیڈآف اسٹیٹ کے منہ سے کبھی ایسی شاندار تقریر سننے کو نہیں ملی۔48گھنٹوں میں آئی ایم ایف سربراہ سے لگاتار تین میٹنگز کرنا سفارتی دنیا میں غیر معمولی سمجھا جاتا ہے۔اسی طرح محمد بن سلمان،فرانسیسی صدر ،برازیل کے حکمران سے ان کی ملاقات میں باڈی لینگویج سب کچھ بتانے کیلئے کافی ہے۔اسی طرح سے حال ہی میں ترکی ،تاجکستان سمیت دیگر سربراہان مملکت سے ہونے والی گفتگو میں جس طرح سے پاکستان کا مقدمہ پیش کیا گیا ہے،ماضی میں اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ شہباز شریف نے گزشتہ ایک سال کے دوران بطور وزیراعظم پاکستان کو معاشی و خارجہ محاذ پربہت فائدہ پہنچایا ہے۔جس پر بہرحال انہیں شاباش دینی چاہئے۔

تازہ ترین