پاکستان پیپلزپارٹی کی 1970ءسے خواہش رہی ہے کہ وہ کراچی کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے، لیکن جب جب کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے بازو پھیلانے کی کوشش کی ، نتیجے میں اس کے کارکنوں اور رہنماؤں کو دن دہاڑے قتل کردیا جاتا تھا، ضیاالحق کا دور ہو یا پرویز مشرف کا، پاکستان پیپلز پارٹی کو ہر آمر نے کراچی میں پھلنے پھولنے سے روکا۔ جس پی پی پی رہنما کو کراچی میں مقبولیت نصیب ہوئی اسے قتل کردیا گیا، نجیب احمد، عثمان غنی، منور سہروردی، عبداللہ مراد، جیسے مقبول رہنما کراچی میں شہید ہوتے رہے۔ کراچی کی یہ بھی بدقسمتی رہی ہے کہ کراچی والوں کو 1970ءکے بعد کبھی آزادانہ ووٹ ڈالنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا، 1970ءکے الیکشن میں بھی پاکستان پیپلزپارٹی کراچی کی سب سے مقبول پارٹی بنکر ابھری تھی، کراچی کی 15 صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں سے 7 پر پی پی پی کے امیدوار جیتے تھے، دیگر 8 نشستیں مختلف جماعتوں کو نصیب ہوئیں جبکہ جماعت اسلامی کو کراچی سے 1970ء میں بھی ایک نشست ملی تھی اور 2018ءکے انتخابات میں بھی ایک نشست ملی ۔جب جب جمہوری حکومت کے سائے تلے انتخابات ہوئے تو جماعت اسلامی کو شہر کراچی سے ایک سے زیادہ نشست نہ مل سکی۔ اس بار بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کو اگر نشستیں ملیں تو وہ صرف اور صرف ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کی وجہ سے، اگر ایم کیو ایم نے بائیکاٹ نہ کیا ہوتا تو جماعت اسلامی کیلئے ایک سیٹ نکالنا بھی آسان نہ ہوتا۔پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ کنٹونمنٹ بورڈ اور کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی۔ پی پی پی رہنماؤں کو ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کے باوجود ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کراچی پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیگا، اور 2013ءکے بلدیاتی انتخابات سے پہلے کروائے گئے تمام سروے بھی یہی کہہ رہے تھے کہ شہر کراچی میں جماعت اسلامی ہی اپنا مئیر بنائے گی۔لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کے صدر سینیٹر سعید غنی گزشتہ دو سال سے ہر تقریر میں کہہ رہے تھے کہ آنے والے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی۔سعید غنی کا اپنا حلقہ بھی منی کراچی ہے جہاں سے وہ پہلی بار 2017 میں ایم پی اے منتخب ہوئے اس سے پہلے اس حلقے سے پی پی پی امیدوار کو 2000 کے قریب ہی ووٹ ملے تھے لیکن سعید غنی کو 26 ہزار ووٹ ملے۔ سعید غنی کو اپنے حلقے میں انتخاب جیتنے کے بعد اندازہ ہو گیا تھا کہ کراچی میں اگر جماعت کی سطح پر امیدوار ٹھیک منتخب کیا جائے تو الیکشن جیتنا ناممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ ان کے اپنے حلقے میں پنجابی، پختون، کشمیری، اردو بولنے والے ،سندھی سمیت ہر قوم رہتی ہے اور انھیں اندازہ تھا کہ کراچی کا ووٹر کیا چاہتا ہے اور کراچی کے ووٹر کو کیسے رام کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بحیثیت صدر پی پی پی کراچی کنٹونمنٹ بورڈ الیکشن میں اپنی جماعت کے جن جن امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی سفارش کی ان میں 90انتخاب جیت گئے اور بلاول بھٹو زرداری کو اندازہ تھا کہ سعید غنی کراچی کا بیٹا ہے اور کراچی کی تنظیم سے گزشتہ 30سال سے وابستہ ہے، بلاول بھٹو زرداری نے سعید غنی پر اعتماد جاری رکھا اور سعید غنی کے سفارش کردہ بلدیاتی امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے اور 2023ء کے بلدیاتی انتخابات میں ایک بار پھر سعید غنی اپنے دفتر میں بیٹھ کر مہم جوئی کرتے رہے، کئی ٹی وی ٹاک شوز میں رات اس لیے شامل نہیں ہوتے تھے کہ کراچی کے کسی نہ کسی حصے میں بلدیاتی انتخابات کیلئے میٹنگ میں مصروف ہوتے تھے۔ بحیثیت صدر پی پی پی کراچی انتخابات جیتنے کے بعد بھی ن لیگ، جماعت اسلامی، جے یو آئی اور دیگر جماعتوں کیساتھ رابطے میں رہے کہ کسی طرح کراچی میں متفقہ مئیر آجائے، لیکن جب جماعت اسلامی نہ مانی تو سعید غنی نے دیگر جماعتوں سے بھی رابطے بڑھا دیئے اس دوران سعید غنی سے پی ٹی آئی کے چند منتخب چیئرمینز نے بھی رابطہ کیا اور سعید غنی کو مزید اس بات کا یقین ہوگیا کہ جماعت اسلامی کا مئیر بننا ناممکن ہے جس کے بعد سعید غنی ہر شو میں یہ کہتے نظر آئے کہ پی پی پی کا مئیر بنا نہیں پی پی پی کا مئیر بن چکا ہے بس اعلان ہونا باقی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے سندھ میں جو قابل غور فیصلے کیے ہیں ان میں کہیں بھی آپ کو تعصب نظر نہیں آئیگا۔ مثلاً سندھ میں 6 میئر ہیں جن میں صرف 2 سندھی بولنے والے ہیں جبکہ چار اردو بولنے والے ہیں۔ کراچی ، سکھر اور نواب شاہ کےمئیر اردو بولنے والےہیں، میر پور خاص کا مئیر اور ڈپٹی مئیر اردو بولنے والے ہیں، جبکہ صرف لاڑکانہ اور حیدرآباد کے مئیر سندھی بولنے والے ہیں،اس سے مخالفین کے پی پی کی بابت تعصب پرستی کے الزامات اپنی موت آپ مرگئے ہیں۔ پی پی پی کے پاس اگر پنجاب میں بھی کوئی سعید غنی جیسا ورکر ہو تو اس کا استعمال کرے کیوں کہ پنجاب پی پی پی کی جنم بھومی ہے، مئیر کراچی پی پی پی کا بن سکتا ہے تو وزیر اعلیٰ پنجاب بھی جلد پی پی پی کا ہی ہوگا۔