• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی ایک بار پھر امید پیدا ہو گئی ہے۔ڈاکٹر عافیہ کے امریکی وکیل کلائیو اسمتھ کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی حکومت امریکی حکام سے رابطہ کرے تو ڈاکٹر عافیہ امریکی قید سے رہا ہو کر وطن واپس آسکتی ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ آج تک اس حوالے سے کسی بھی حکومت نے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔ ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے اس ظالمانہ اقدام کے بعد مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حکومتیں آئیں لیکن کسی بھی حکومت نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کچھ نہ کیا حتیٰ کہ ماضی میں ایمل کانسی اور ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ کے حوالے کر دیا گیا تھا لیکن قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان واپس لانے کیلئے امریکہ کو مجبور نہ کیا گیا۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں جن کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اب پھر مسلم لیگ ن کے شہباز شریف وزیراعظم پاکستان ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے پاس موقع ہے، وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کے اس دیرینہ مسئلے کو حل کر کے نیک نامی سمیٹ سکتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی یہ اہم قومی معاملہ ابھی زیر سماعت ہے اور چند روز میں اس کیس کی پھر سماعت ہو سکتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی کوششوں سے ہی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور سینیٹر مشتاق احمد خان کی الگ الگ ملاقاتیں امریکہ میں ممکن ہو ئیں۔ سوال یہ ہے کہ جب امریکی حکام بار بار کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی حکومت چاہے تو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی ہو سکتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے حکومتی سطح پر کاوشیں نہیں کی جا رہیں۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے موثر اقدامات کرنا چاہئیں۔ہماری سول اور عسکری قیادت کے امریکی حکام سے اچھے تعلقات ہیں ۔ یہ اہم قومی معاملہ از سر نو اجاگر ہوا ہے، اس موقع سے فائدہ اٹھا کر عافیہ صدیقی کی رہائی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی اور پاکستانی حکومتوں کی جانب سے کی گئی ناانصافیوںکا شکار ایک ایسی مظلوم خاتون ہیں جن کی رہائی کا دنیا بھر کے انصاف اور انسانیت کے علمبردار مطالبہ کر رہے ہیں ۔گزشتہ ماہ جون کے اوائل میں ان کی ہمشیرہ اور عافیہ موومنٹ کی رہنما ڈاکٹر فوزیہ صدیقی صاحبہ اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے 20 سال کے طویل عرصہ کے بعد امریکی ریاست ٹیکساس میں واقع ایف ایم سی کارزویل جیل میں ان سے ملاقات کی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کے بعد ان کے وکیل کلائیو اسٹفورڈ اسمتھ، سینیٹر مشتاق احمد خان اور ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے عافیہ کی صحت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جس کے بعد الیکٹرونک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا معاملہ ایک مرتبہ پھر نمایاں ہوا ہے۔ پوری پاکستانی قوم کی طرف سے ان کی رہائی اورانہیں وطن واپس لانے کے مطالبے میں ایک بار پھر شدت آئی ہے۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اور بالخصوص قومی پریس میں شہ سرخیوں کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کا معاملہ اجاگر ہوا ہے۔ بدقسمتی سے جب بھی کوئی ایسا موقع آتا ہے تو ڈاکٹر عافیہ سے متعلق جھوٹ اور حقائق کے منافی باتیں پھیلانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ سے متعلق منفی باتیں پھیلانے کی عام طور پر ایک وجہ کم علمی (lack of knowledge) بھی ہے اور دوسری وجہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان میں ترقی ، استحکام اور خوشحالی نہیں چاہتے ۔ مقام افسوس ہے کہ ایک کالم نویس”عافیہ صدیقی قیدی نمبر 650 “ میں لکھتے ہیں کہ ” ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے مہلک ہتھیار تیار کرنے کا فارمولا ایجاد کیا۔ جو آج تک ان سے کوئی بھی معلوم نہ کر سکا“۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹرعافیہ کی تحقیق اس پر تھی کہ انسان کا ذہن کس طرح سیکھتا ہے۔ دماغی سائنس (Cognitive Neuro Science) میں (تعلم کا وہ عمل جس میں متعلم حقائق و تصورات کو قوت مدرکہ یعنی دریافت اور معلوم کرنے کی قوت سے حاصل کرے)پی ایچ ڈی کا مقالہ جس کا عکس ہے یہ بتا رہا ہے کہ اس کے مقالہ (thesis) کا عنوان (separating the components of Iimitation) (سیکھنے کے اجزاءکو الگ کرنا)جس میں عافیہ صدیقی نے یہ دکھایا کہ بچے دوسروں کو دیکھ کر کیسے سیکھتے ہیں اور بچوں کی ذہنی صلاحیت کیسے پروان چڑھائی جائے کہ کندذہن بچے بھی سیکھ سکیں۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی نہ تو خود سائنسدان تھیں اور نہ ہی اس کا سابق شوہر سائنسدان تھا اور ڈاکٹر عافیہ نہ ہی طبی معالج تھیں ۔ ہمارے ان فاضل دانشوروں کو یہ بھی علم نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے فزکس یا کیمسٹری میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی اس لئے مہلک ہتھیار تیار کرنے کا فارمولہ ایجاد کرنے کا دعویٰ کرنا یا تو کم علمی اور کم فہمی یا پھربغض و عناد۔ وہ تو ماہر تعلیم تھیں۔وہ ملک میں تعلیمی انقلاب لانا چاہتی تھیں مگر بدقسمتی سے 30 مارچ، 2003 کو اسلام آباد جاتے ہوئے اسے تین کمسن بچوں سمیت اغواکر کے امریکی حکام کے حوالے کردیا گیا اور جنرل پرویز مشرف نے خود اعتراف کیا تھا کہ اس نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور سینکڑوں لاپتہ پاکستانیوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے حوالے کیا تھا۔ پرویز مشرف کے خلاف چارج شیٹ بہت طویل ہے مگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت سینکڑوں پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کرنے کا جرم ناقابل معافی ہے۔ اب شہباز شریف حکومت کو اس اہم دینی اور قومی فریضہ کو جلد پورا کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان کی بیٹی کی رہائی اور وطن واپسی ہر پاکستانی پر قرض بھی ہے اور فرض بھی۔

تازہ ترین