تحریر: نرجس ملک
ماڈل: عرشمہ
ملبوسات: فائزہ امجد اسٹوڈیو(ڈی ایچ اے، لاہور)
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ : نوید رشید
معروف امریکی فلاسفر، شاعر رالف والڈو ایمرسن کا ایک مشہور قول ہے کہ ’’حُسن خدا کے ہاتھ کی لکھائی ہے۔‘‘ یوں تو کائنات کا ذرّہ ذرّہ ہی خدا کے ہاتھ کی تحریر ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ’’فطرتِ انسانی‘‘ بھی رب ہی کی عنایت ہے اوراِس میں کوئی شک نہیں کہ انسان طبعاً، فطرتاً، حُسن پرست واقع ہوا ہے۔ حُسنِ فطرت سے لے کر حسین چہروں تک جو کشش، کھنچائو، دل کشی و رغبت، میلان و رجحان ’’خُوب صُورتی‘‘ کی طرف ہوتا ہے، بدصُورتی کی طرف ہونا ممکن ہی نہیں۔
یہاں تک کہ انسانی ہاتھ کی بھی کوئی خُوش رنگ، خُوش نُما تخلیق ٹھٹکنے، ٹھہرنے، ٹکٹکی باندھ دیکھنے پر مجبور کر دیتی ہے اور اِس ضمن میں حضرتِ انسان بہت حد تک بے بس و بے اختیار ہی ہے۔ کوئی لاکھ کہتا رہے کہ ’’خُوب صُورت ہونے سے خُوب سیرت ہونا کہیں بہتر ہے‘‘، کوئی خُوب صُورتی اچھے دل سے زیادہ حسین نہیں‘‘، ’’خُوبی درحقیقت خُوب صُورتی کا پھول ہے‘‘، خُوب صُورتی توجّہ حاصل کرتی ہے، لیکن شخصیت دل چُھو لیتی ہے‘‘، ’’اندر خُوب صُورت ہو، تو باہر خود بخود خُوب صُورت ہوجاتا ہے‘‘، اور ’’حُسن تو دیکھنے والی نگاہ میں ہوتا ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ کہ یہ سب افکار و اقوال مختلف حالات و مواقع، مختلف النّوع تصوّرات و خیالات کے باوصف اپنی اپنی جگہ درست ہوں گے، لیکن ایک بہت ہی سادہ سی حقیقت یہ بھی ہے کہ دل میں اُترنے کے لیے نگاہ میں ٹھہرنا بہرکیف ضروری ہوتا ہے۔
اور…نگاہ میں قدرتی حُسن تو ٹھہر ہی جاتا ہے، لیکن اگراوپر والے کی دین کے ساتھ کچھ پہننے اوڑھنے، بننے سنورنے کا سلیقہ طریقہ بھی آجائے، تو بس پھر تو سونے پر سہاگے والی ہی بات ہے۔ اور آج ہماری بزم، سونے پر سہاگے ہی کے مثل ہے۔ ذرا دیکھیے، تربوزی رنگ پہناوے پرمشین ایمبرائڈری اور لیسز کی آرائش کیا غضب ڈھا رہی ہے۔ زرد رنگ کے دل کش لباس پر لیمن اورگلابی کے امتزاج میں منفرد سی کڑھت کا انداز بہت دل رُبا ہے، تو آتشی گلابی پہناوے پر ملٹی شیڈڈ ایمبرائڈری اور لیسز کا استعمال بھی بہت ہی حسین لُک دے رہا ہے۔ اسپرنگ گرین رنگ جارجٹ کا پہناوا بھی مشینی کڑھت اور دلآویز اسٹچنگ سے آراستہ ہے، تو نارنجی رنگ کڑھت اور لیسز سے مرصّع لباس کے حُسن و دل کشی کا تو جیسے کوئی مول ہی نہیں۔
اب اگر اِس قدر خُوش رنگ و خُوش نُما پہناووں کو کوئی ’’خُوب صُورت، حسین و جمیل‘‘ اپنالے، توپھرایسی غزلیں ہونا تولازم ہی ٹھہرا ناں ؎ اَدائیں حشر جگائیں، وہ اِتنا دِل کش ہے…خیال حرف نہ پائیں، وہ اِتنا دِل کش ہے…غزال قسمیں ستاروں کی دے کے عرض کریں…حُضور! چل کے دِکھائیں، وہ اِتنادِل کش ہے…چمن کو جائے تو دَس لاکھ نرگسی غنچے…زَمیں پہ پلکیں بچھائیں، وہ اِتنا دِل کش ہے…حسین پریاں چلیں ساتھ کر کے ’’سترہ‘‘ سنگھار…اُسے نظر سے بچائیں، وہ اِتنا دِل کش ہے…وہ پنکھڑی پہ اَگر چلتے چلتے تھک جائے… تو پریاں پیر دَبائیں، وہ اِتنا دِل کش ہے…وہ چاند عید کا اُترے جو دِل کے آنگن میں…ہم عید روز منائیں، وہ اِتنا دِل کش ہے…زَمیں پہ خِرمنِ جاں رَکھ کے ہوش مند کہیں…بس آپ بجلی گرائیں، وہ اِتنا دِل کش ہے… سرہانے میر کے ٹُک فاتحہ کو گر وہ جُھکے…تو میر جاگ ہی جائیں، وہ اِتنا دِل کش ہے…حسین تتلیاں پھولوں کو طعنے دینے لگیں…کہا تھا، ایسی قبائیں، وہ اِتنا دِل کش ہے…گلاب، موتیا، چنبیلی، یاسمین، کنول…اُسے اَدا سے لُبھائیں، وہ اتنا دل کش ہے…تمام آئینے حیرت میں غرق سوچتے ہیں…اُسے یہ کیسے بتائیں، وہ اِتنا دِل کش ہے۔