• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُنیا میں بدی کے دو بڑے ناموں میں ایک نام شیطان کاہے اور دُوسرا دَجّال کا۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دَجّال کو پیدا فرما کر مشرق کی جانب کرّۂ اَرض کے کسی دُور دراز جزیرے میں قید فرمادیا تھا۔ دَجّال دُنیا کا وہ سب سے زیادہ قابلِ نفرت شخص ہے، جسے اللہ کے نبی، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے دُنیا کا سب سے بڑا فتنہ قرار دیا اور اُس کے شر سے پناہ مانگنے کی دُعا فرمائی، جب کہ یہودیوں کے نزدیک یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد سب سے زیادہ قابلِ عزت و محترم شخصیت ہے، جسے وہ اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ 

اُن کے عقیدے کے مطابق، مسیح الدَجّال، حضرت دائود علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے، جو دُنیا میں یہودیت قائم کرکے حضرت دائود علیہ السلام کی بادشاہت کو زندہ کرے گا۔ یہودیوں کا ایمان ہے کہ دَجّال نمودار ہونے کے بعد دُنیا بھر سے تمام غیر یہودیوں کو قتل کردے گا۔ مسجدِ اقصیٰ شہید کرکے عظیم الشّان ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرے گا، جس کے بعد پوری دُنیا پر بنی اسرائیل کی حکومت ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا بھر کے یہودی ایک طویل عرصے سے نہ صرف مسیح الدَجّال کے آنے کا بڑی بے چینی سے انتظار کررہے ہیں، بلکہ اُس کے فقیدالمثال استقبال کی تیاریوں میں بھی مصروف ہیں۔

فلسطینیوں کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کرکے یہودی ریاست اسرائیل کا قیام مسیح الدَجّال کے استقبال کا پہلا قدم تھا۔ دَجّال مشرق سے نمودار ہوکر مدینے کی جانب بڑھے گا، لیکن مدینے کے محافظ فرشتے اس کا رُخ دمشق کی جانب پھیر دیں گے۔ دَجّال کے ساتھ70ہزار مسلّح یہودی ہوں گے۔ یہ رَبّ ہونے کا دعویٰ کرے گا، اس کے ساتھ مصنوعی جنّت، دوزخ، پانی کی نہر اور غذا کا پہاڑ ہوگا۔ اس کے ساتھ شیطان کی فوج بھی ہوگی، جن کی مدد سے یہ بارش برسائے گا، لوگوں کو زندہ کرے گا، کھیت کھلیان سرسبز و شاداب کرے گا اور اس کا یہ سحر و شیطانی تماشا ابھی جاری ہی ہوگا کہ اچانک حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے اور اُسے جہنّم واصل کردیں گے۔

قُربِ قیامت کی تین بڑی نشانیاں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’دَجّال کا نمودار ہونا قُربِ قیامت کی تین بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’جب تین باتوں کا ظہور ہوجائے گا، تو اس کے بعد ایمان لانا یا نیکی کرنا کوئی فائدہ نہ دے گا۔ سُورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دَجّال کا نمودار ہونااور دابّۃ الارض یعنی زمین سے ایک عجیب الخلقت جانور کا نکلنا۔‘‘ (صحیح مسلم،398)۔ اس حدیثِ مبارکہؐ کے مطابق دَجّال کے نمودار ہونے کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ قیامت کے قریب دَجّال کے نمودار ہونے کے حوالے سے ایک اور حدیثِ مبارکہؐ حضرت حذیفہ بن اسید غفاریؓ سے مروی ہے کہ ’’ہم بیٹھے باتیں کر رہے تھے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ’’تم یہ کیا باتیں کررہے ہو؟‘‘ ہم نے عرض کیا، ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم قیامت کا ذکر کررہے ہیں۔‘‘ 

آپؐ نے فرمایا، ’’قیامت اُس وقت تک نہیں آئے گی، جب تک کہ تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔ مغرب سے سُورج کا نکلنا، دَجّال کا نمودار ہونا، دابّۃ الارض، یاجوج ماجوج کا خروج، عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام کا نزول، تین جگہ زمین کا دھنسنا، ایک مغرب میں ایک مشرق میں اور تیسرے جزیرہ عرب میں۔ تیز ہوا اور آخر میں وہ آگ ہوگی، جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو میدانِ حشر کی جانب دھکیلے گی۔‘‘ (صحیح مسلم، 72-85)۔

تیس جھوٹے دَجّال: صحیح بخاری میں ایک حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہوگی، جب تک کہ دو گروہ آپس میں جنگ نہ کرلیں، اور ان میں عظیم جنگ برپا ہوگی، حالاں کہ دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا۔ اور قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہوگی، جب تک کہ تیس کے قریب جھوٹ بولنے والے دَجّال پیدا نہ ہوجائیں۔ اُن میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب المناقب، 3609)۔

دَجّال کے معنیٰ و مطلب: دَجّال کا لفظ عربی زبان میں جعل ساز، ملمّع ساز، فریبی، جھوٹے اور گم راہ کُن شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے، جب کہ دجل کے معنیٰ کسی نقلی چیز پر سونے کا پانی چڑھانے کے ہیں۔ اس بدترین شخص کا نام دَجّال شاید اسی لیے رکھا گیا ہوگا کہ جھوٹ، فریب، دھوکا دہی، غلط بیانی اور دُنیا کی تمام تر خباثتیں اس کی مکروہ شخصیت کے نمایاں ترین وصف ہیں۔ اس کا ہر فعل، ہر عمل، ہر قول شیطانیت سے بھرپور اور فتنہ فساد کا سبب ہوگا۔ حضرت ابوقتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت ہشام بن عامرؓ سے سُنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’حضرت آدمؑ سے لے کر قیامت تک کوئی مخلوق (فتنہ فساد میں) دَجّال سے بُری نہ ہوگی۔‘‘ (صحیح مسلم، 7395، 7396)۔

حضور اکرمؐ نے دَجّال کو دو بار دیکھا: حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’سفرِ معراج کے دوران مَیں نے موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو دیکھا تھا۔ اُن کا رنگ گندمی، قد لمبا اور بال گھنگھریالے تھے، جیسے قبیلہ شنوہ کا کوئی شخص ہو۔ پھر مَیں نے عیسیٰ ابنِ مریم علیہما السلام کو دیکھا، اُن کا قد درمیانہ، رنگ سُرخ و سفید اور سر کے بال سیدھے تھے۔ اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی نشانیاں دکھائیں۔ مَیں نے دوزخ کے داروغہ اور دَجّال کو بھی دیکھا۔‘‘ (صحیح بخاری، 3239)۔ 

حضرت عبداللہ بن عُمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں نے رات خود کو نیند کی حالت میں کعبے کے پاس دیکھا، تو مجھے ایک شخص نظر آیا، جو گندم گوں لوگوں میں سب سے خُوب صورت تھا، اس کے بالوں کی لمبی لمبی خُوب صورت لٹیں تھیں، جن میں کنگھی کی ہوئی تھی، اور اُن میں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ وہ دو آدمیوں کے سہارے بیت اللہ کا طواف کررہے تھے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا کہ یہ مسیح ابنِ مریم علیہما السلام ہیں۔ پھر اچانک میں نے ایک آدمی کو دیکھا۔ اُلجھے ہوئے گھنگھریالے بالوں والا، اس کی دائیں آنکھ کانی تھی، جیسے انگور کا اُبھرا ہوا دانہ۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو کہا گیا کہ یہ مسیح دَجّال ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، 425، صحیح بخاری، 3440، 3441، 5902، 6999، 7026، 7128)۔ 

مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہے کہ حضور اکرم ؐ کو دَجّال جسمانی طور پر دکھا دیا گیا اور آپؐ نے فتنۂ دَجّال کو دُنیا کے تمام فتنوں میں سے عظیم تر فتنہ قرار دیا۔ یہود و نصاریٰ، جس کے استقبال کی تیاریوں میں عرصۂ دراز سے عمومی طور پر مصروف ہیں، چناں چہ قیامت سے پہلے دَجّال کا آنا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہونا احادیث نبوی ؐ سے ثابت ہے۔

دَجّال کا حُلیہ: مختلف احادیثِ مبارکہؐ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دَجّال کا جو حُلیہ بیان فرمایا، وہ اس طرح سے ہے۔ ’’پستہ قد، بھاری بھرکم جسم اور مکروہ چہرے پر اُلجھے ہوئے بے ترتیب گھنگھریالے بالوں والا ایک شخص، جس کی دائیں آنکھ کانی، جیسے انگور کا اُبھرا ہوا دانہ، سُرخ رنگ اور دونوں آنکھوں کے درمیان یعنی ماتھے پر ک ف ر (کافر) لکھا ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، 7364، 429، 427)۔

دَجّال کے پیروکاروں کی اکثریت یہودیوں اور عورتوں پر مشتمل ہوگی۔ دَجّال جب نمودار ہوگا، تو اُس کے لشکر میں ستّر ہزار یہودی پیروکار ہوں گے، جن کے سروں پر طیلسان کی عبائیں ہوں گی۔ (صحیح مسلم، 7392)۔ سیّدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’دَجّال اصفہان کی یہودی بستی سے ظاہر ہوگا، اس کے ساتھ ستّر ہزار یہودی ہوں گے۔ انھوں نے سبز رنگ کی شالیں کندھوں پر ڈال رکھی ہوں گی۔‘‘ (مسندِ احمد، 12983)۔ 

صحابہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ زمین پر کتنی تیزی سے چلے گا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اس کی رفتار ایسی ہوگی، جس طرح ہوا بادلوں کو اُڑا لے جاتی ہے، وہ اس گدھے پر سوار ہوگا، جس کے کانوں کے درمیان چالیس ہاتھوں کا فاصلہ ہوگا۔‘‘

مصنوعی جنّت اور دوزخ: شیطان کی طرح اللہ تعالیٰ نے دَجّال کو بھی قوانینِ قدرت میں سے چند چیزوں سے نوازا۔ وہ جب نمودار ہوگا، تو اس کے ساتھ مصنوعی جنّت و دوزخ ہوگی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’کیا میں تمہیں دَجّال کے متعلق ایسی خبر نہ دوں، جو کسی نبی نے آج تک اپنی قوم کو نہیں بتائی؟ بے شک وہ کانا ہے اور اپنے ساتھ جنّت اور دوزخ کی شبیہ بھی لائے گا۔ 

درحقیقت جسے وہ جنّت کہے گا، وہ آگ ہوگی اور جسے وہ جہنّم کہے گا، وہ دراصل جنّت ہوگی۔ نیز، میں تمہیں اس سے خبردار کرتا ہوں، جس طرح حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا تھا۔‘‘ (صحیح بخاری، 3338)۔ حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سُنا کہ ’’جب دَجّال نکلے گا، تو اُس کے ساتھ آگ اور پانی دونوں ہوں گے، لیکن لوگوں کو جو آگ دکھائی دے گی، وہ ٹھنڈا پانی ہوگا اور جو ٹھنڈا پانی دکھائی دے گا، وہ جلانے والی آگ ہوگی، تو تم میں سے جو کوئی اُس کے زمانے میں ہو، تو اُسے اُس میں گرنا چاہیے، جہاں آگ ہو، کیوں کہ وہ انتہائی شیریں اور ٹھنڈا پانی ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری، 3450)۔

دَجّال کا سحر اور شیطانوں کا کمال: سیدّہ اسماءؓ بنتِ یزید سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپؐ کے گھر میں موجود تھے کہ آپؐ نے فرمایا، ’’ظہورِ دَجّال سے تین سال قبل آسمان ایک تہائی پانی اور زمین ایک تہائی فصل روک لے گی۔ جب دُوسرا سال آئے گا، تو آسمان دو تہائی پانی اور زمین دو تہائی فصلیں روک لے گی۔ پھر جب تیسرا سال شروع ہوگا، تو آسمان مکمل طور پر اپنا پانی اور زمین مکمل طور پر اپنی فصلیں روک لے گی۔ ٹاپوں والے اونٹ اور کُھروں والی گائیں، بیل، بھیڑیں، بکریاں، گھوڑے اور گدھے سب ہلاک ہوجائیں گے۔ اتنے میں ادھر دَجّال پہنچ کر ایک دیہاتی شخص سے کہے گا، ’’اگر مَیں تمہاری اونٹنیوں کو فربہ اور دُودھ سے بھرے تھنوں کی صُورت پیدا کرکے دکھائوں، تو کیا تم مان جائو کہ میں تمہارا رَبّ ہوں؟‘‘ وہ کہے گا، ’’ہاں بالکل۔‘‘ اس کے بعد شیطان اُس شخص کے اونٹوں کی شکل اختیار کرے گا، تو وہ شخص اس کے پیچھے لگ جائے گا۔ 

اسی طرح وہ دَجّال ایک اور شخص سے کہے گا کہ ’’اگر میں تمہارے باپ، بیٹے اور تم اپنے خاندان کے جن لوگوں کو پہچانتے ہو، سب کو زندہ کردوں، تو کیا تم یقین کرلو گے کہ میں تمہارا رَبّ ہوں؟‘‘ وہ کہے گا، ’’ہاں بالکل۔‘‘ پھر دَجّال شیطانوں کو ان لوگوں کی شکل میں پیش کردے گا۔ اس طرح وہ بھی اس کے پیچھے چلا جائے گا۔‘‘ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور گھر میں موجود سب لوگ رونے لگے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے، تو ہم سب رو رہے تھے۔ آپؐ نے پوچھا، ’’تم لوگ کیوں رو رہے ہو؟‘‘ مَیں (اسماء) نے کہا۔ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ نے دَجّال کے متعلق جو کچھ بیان فرمایا، اسے سُن کر رونا آگیا۔‘‘ 

ایک روایت میں ہے کہ انھوں نے عرض کیا کہ ’’آپؐ نے دَجّال کا ذکر فرما کر ہمارے دِلوں کو ہلادیا ہے۔‘‘ اللہ کی قسم! میرے اہل کی ایک لونڈی ہے۔ جب وہ آٹا گوندھتی ہے، تو ابھی اپنا کام پورا بھی نہیں کرپاتی کہ بھوک کی وجہ سے ٹوٹنے لگتی ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ’’جب ہم آٹا گوندھتے ہیں، تو ابھی روٹی پکنے بھی نہیں پاتی کہ ہمیں بھوک لگنے لگتی ہے۔ تو اُس وقت ہم کیا کریں گے؟‘‘ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، ’’اس وقت اہلِ ایمان کو کھانے پینے کے بجائے تکبیر، تسبیح اور تحمید پرکفایت کرنی چاہیے۔‘‘ پھر آپؐ نے فرمایا، ’’تم لوگ مت روئو، کیوں کہ اگر میری موجودگی میں دَجّال کا ظہور ہوگیا، تو مَیں اس کا مقابلہ کرلوں گا اور اگر میرے بعد ہوا، تو ہر مسلمان کا خلیفہ اللہ تعالیٰ خود ہوگا۔‘‘ (مسندِ احمد، 12969)۔ سیّدنا جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’نہ کوئی ایسا فتنہ رُونما ہوا اور نہ قیامت تک ہوگا، جو فتنۂ دَجّال سے زیادہ سنگین ہو۔‘‘ (مسندِ احمد، 12974)۔ (جاری ہے)