وہ نبی یا فرشتے نہیں تھے: مولانا احمد رضا خان بریلویؒ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ذُوالقرنین کا نام اسکندر ہے۔ یہ حضرت خضر علیہ السلام کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ انھوں نے اسکندریہ کی بنیاد اور اس کا نام اپنے نام پر رکھا۔ حضرت خضر علیہ السلام اُن کے وزیر تھے۔ دُنیا میں ایسے چار بادشاہ ہوئے ہیں، جو تمام دُنیا پر حکم ران تھے۔ دو مومن اور دو کافر، عن قریب ایک پانچویں بادشاہ اس اُمت سے ہونے والے ہیں، جن کا اسمِ مبارک امام مہدی ہے۔ اُن کی حکومت تمام رُوئے زمین پر ہوگی۔‘‘ ذُوالقرنین کی نبوت میں اختلاف ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ’’وہ نہ نبی تھے اور نہ فرشتے، بلکہ اللہ سے محبت کرنے والے بندے تھے۔ اللہ نے اُنھیں محبوب بنایا۔ ذُوالقرنین نے کتابوں میں دیکھا کہ اولادِ سام میں سے ایک شخص چشمۂ حیات سے پانی پیے گا اور اسے موت نہ آئے گی۔ یہ دیکھ کر وہ چشمۂ حیات کی طلب میں مغرب و مشرق کی طرف روانہ ہوگئے۔ آپ کے ساتھ حضرت خضر بھی تھے۔ وہ توچشمۂ حیات تک پہنچ گئے اور انھوں نے پی بھی لیا، مگر ذُوالقرنین کے مقدّر میں نہ تھا، انھوں نے نہ پایا۔‘‘ (کنزالایمان، 436)۔
امام بخاریؒ اور حافظ ابنِ حجرؒ کا نقطہ ٔ نظر: امام بخاریؒ نے ذُوالقرنین کے واقعے کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تذکرے سے قبل نقل کیا ہے اور اس کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابنِ حجرؒ تحریر کرتے ہیں کہ ’’امام بخاریؒ نے ذُوالقرنین کے واقعے کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تذکرے سے قبل اس لیے بیان کیا ہے کہ وہ ان لوگوں کے قول کو کم زور کرنا چاہتے ہیں، جو سکندرِ یونانی کو ذُوالقرنین کہتے ہیں۔‘‘ اور پھر حافظ ابن حجرؒ نے اپنی جانب سے تین وجوہ بیان کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ سکندرِ یونانی کسی طرح بھی قرآن شریف میں مذکور ذُوالقرنین نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے یہ بھی تصریح کی کہ جن حضرات نے سکندرِ یونانی مقدونی کو ذُوالقرنین کہا ہے، غالباً اُنھیں اس روایت سے مغالطہ ہوا ہے، جو طبری نے اپنی تفسیر اور محمد بن ربیع نے ’’کتاب الصحابہ‘‘ میں نقل کی ہے اور جس میں اسے رومی اور بانی اسکندریہ کہا گیا ہے، مگر یہ روایات ضعیف اور ناقابلِ اعتماد ہیں۔ (فتح الباری، 292/6)۔
مقصدِ قرآنی ہر حال میں حاصل ہے: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع، سورۂ کہف کی تفسیر کے دوران ذُوالقرنین سے متعلق متعدد روایات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’میرا مقصد ان تمام روایات کے نقل کرنے سے صرف اتنا تھا کہ ذُوالقرنین کی شخصیت اور اُن کے زمانے سے متعلق علمائے اُمت اور آئمۂ تاریخ و تفسیر کے اقوال سامنے آجائیں۔ ان میں سے کس کا قول درست ہے، یہ میرے مقصد کا جُز نہیں۔ کیوں کہ جن اُمور کا نہ قرآن نے دعویٰ کیا، نہ حدیث نے اُنھیں بیان کیا، ان کے معیّن و مبیّن کرنے کی ذمّے داری بھی ہم پر نہیں، اور اُن میں جو قول بھی راجح اور صحیح قرار پائے، انھیں مقصدِ قرآنی ہرحال میں حاصل ہے۔‘‘ (معارف القرآن،633)۔ اُوپر ذُوالقرنین کے نام و نسب اور زمانے وغیرہ سے متعلق مختلف اقوال تحریر کیے گئے ہیں، قرآنِ کریم نے اُنھیں غیرضروری خیال کرتے ہوئے زیادہ بحث مباحثے سے شروع ہی میں منع فرمادیا ہے۔ اگر نام، نسب اور زمانے وغیرہ کا احوال ضروری ہوتا، تو قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہؐ میں اُن کا ذکر فرمایا جاتا۔
ذُوالقرنین کا مغرب کی جانب سفر:سورۃالکہف کی آیات 85,84میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’ہم نے اسے زمین میں تمکّن عطا کیا تھا اور اسے ہر طرح کے اسباب و وسائل مہیّا کیے تھے۔ تو اس نے ایک مہم کا سرو سامان کیا۔‘‘ آگے آیت میں ذُوالقرنین کے سفر کا ذکر ہے۔ ذُوالقرنین نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق اپنی لشکرکشی کا آغاز مغربی علاقوں سے کیا۔ اور مختلف ممالک فتح کرتا ہوا بحیرۂ روم کے ساحل تک جا پہنچا۔ چوں کہ اُس زمانے میں دُنیا کی حدود کا علم لوگوں کو نہیں تھا، چناں چہ ذُوالقرنین اور اُس کے لشکر نے بھی یہی خیال کیا ہوگا کہ ہم مغرب میں دُنیا کے آخری حصّے تک پہنچ گئے ہیں اور آگے سمندر ہے۔
ساحل پر اُنھیں سُورج غروب ہوتا ہوا نظر آیا، تو وہ اس جگہ کو ’’مغرب الشمس‘‘ (سُورج کے غروب ہونے والی جگہ) سمجھے۔ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ کہف کی آیت 86میں فرمایا ہے۔ ترجمہ:’’یہ کہ ’’وہ سُورج ڈُوبنے کی جگہ پہنچ گیا اور اسے دلدل کے چشمے میں ڈُوبتا ہوا پایا۔ اس چشمے کے پاس اُسے ایک قوم ملی۔ ہم نے کہا، اے ذُوالقرنین! تم چاہو تو اُنھیں سزا دو اور چاہو، تو اُن میں حُسنِ سلوک کا معاملہ کرو۔‘‘ (سورۂ کہف آیت 86)۔ ذُوالقرنین فاتح کی حیثیت سے اس مغربی علاقے میں داخل ہوا تھا اور مفتوح قوم اس کے بس میں تھی۔ یہاں اللہ تعالیٰ کو اپنے نیک بندے کا امتحان لینا مقصود تھا۔ چناں چہ فرما دیا کہ یہ مفتوح قوم اب تیرے آگے بے بس ہے، تُو چاہے تو اُن سب کو قتل کردے اور چاہے تو اُن کے ساتھ حُسنِ سلوک کا معاملہ کر۔ لیکن ذُوالقرنین بھی اللہ کے برگزیدہ بندے تھے۔ وہ ظلم و زیادتی یا بلاوجہ خون خرابا کیوں کرتے۔ چناں چہ اُنھوں نے اس قوم کے ساتھ حُسنِ سلوک کا معاملہ کیا۔
سفر جانبِ مشرق: مغربی مہم سے فارغ ہونے کے بعد ذُوالقرنین نے مشرقی علاقوں کی جانب پیش قدمی کا منصوبہ بنایا اور مُلک مُلک فتح کرتا ہوا مشرق کی جانب سُورج طلوع ہونے کے مقام تک پہنچ گیا۔ (سورۂ کہف آیت90)۔ ڈاکٹر اسرار احمد فرماتے ہیں کہ اس مہم کے سلسلے میں تاریخی طور پر مکران کے علاقے تک ذُوالقرنین کی پیش قدمی ثابت ہے۔ (واللہ اعلم) ممکن ہے، ساحلِ مکران پر کھڑے ہوکر اُنھوں نے محسوس کیا ہو کہ وہ اس سمت میں بھی زمین کی آخری حد تک پہنچ گئے ہیں۔ (بیان القرآن،384/4)۔ یہاں اس نے ایسی وحشی قوم دیکھی، جو دُھوپ سے بچنے کے لیے کوئی بندوبست نہ کرتے تھے۔ نہ مکان نہ خیمہ، یہاں تک کہ لباس وغیرہ کے استعمال سے بھی واقف نہ تھے۔ مشرقی علاقوں کی مکمل فتح کے بعد ذُوالقرنین نے اُن کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا، جو مغربی قوم کے ساتھ کیا تھا۔
شمال کی جانب سفر: ذُوالقرنین نے منتہائے مغرب اور پھر منتہائے مشرق تک کے علاقے فتح کرنے کے بعد ایک اور جانب سفر کا قصد کیا۔ مفسّرین لکھتے ہیں کہ یہ سفر شمال کے کوہستانی سلسلوں کی جانب تھا۔ یہاں تک کہ وہ دو پہاڑی سلسلوں تک جا پہنچا۔ جس کے داہنی جانب مشرق میں بحیرۂ کیسپئن تھا اور دُوسری طرف مغرب میں بحیرۂ اَسود۔ ان دونوں سمندروں کے ساحلوں کے ساتھ ساتھ دو پہاڑی سلسلے چلتے ہیں اور ان ہی شمالی پہاڑی سلسلوں کی درمیانی گزرگاہ سے وحشی قبائل (یاجوج ماجوج) اس علاقے پر حملہ آور ہوتے تھے۔
یہ غیر متمدّن لوگ ذوالقرنین کی زبان سمجھنے سے قاصر تھے، تو اسی طرح ذُوالقرنین اور اُس کا لشکر بھی اُن لوگوں کی زبان سے ناآشنا تھا۔ یہاں کے رہنے والے یاجوج ماجوج کے وحشیانہ طرزِ عمل سے بہت زیادہ جانی نقصان اُٹھا چکے تھے اور ہر وقت ڈر اور خوف کے عالم میں رہتے تھے، چناں چہ ان لوگوں نے ذُوالقرنین اور اُس کے لشکر کو نجات دہندہ جان کر کسی نہ کسی طرح اپنا مدّعا بیان کیا اور یاجوج ماجوج کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کی فریاد کی۔ صحیح بخاری کے مطابق، نسل اِنسانی میں یاجوج ماجوج دو وحشی قومیں ہیں۔ اُن کی تعداد دُوسری اِنسانی نسلوں کے مقابلے میں زیادہ ہوگی اور انہی سے جہنّم زیادہ بَھری جائے گی۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورۂ حج)۔
سورۂ کہف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’انہوں نے کہا، اے ذُوالقرنین! یاجوج ماجوج اس ملک میں بڑے فسادی ہیں، تو کیا ہم آپ کے لیے کچھ خرچ کا انتظام کریں۔ اس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنادیں۔ اس (ذُوالقرنین) نے کہا میرے اختیار میں میرے پروردگار نے جو دے رکھا ہے، وہی بہتر ہے۔ البتہ تم میری مدد، قوت و طاقت کے ذریعے کرو۔ میں تمہارے اور اُن کے درمیان ایک مضبوط اوٹ بنادوں گا۔ مجھے لوہے کی (بڑی بڑی) چادریں لادو، یہاں تک کہ جب ان دونوں پہاڑوں کے درمیان دیوار برابر کردی، تو حکم دیا کہ آگ تیز جلائو۔ یہاں تک کہ لوہے کی چادریں تیز آگ سے سرخ ہوگئیں، پھر کہا کہ (اب) میرے پاس تانبا لائو تاکہ اس پر پگھلا کر ڈال دوں۔ پس، تو ان میں اس دیوار کے اُوپر چڑھنے کی طاقت نہ رہی اور نہ یہ طاقت رہی کہ اس میں سُوراخ کرسکیں۔‘‘ (سورۃ الکہف آیات 94۔97)۔
اگرچہ یہ دیوار بڑی مضبوط اور انتہائی بُلند بنادی گئی کہ جس پر چڑھ کر پارس میں سُوراخ کرکے یاجوج ماجوج کا دُوسری اِنسانی آبادی کی جانب آنا جانا ناممکن ہوگیا، لیکن جس دن اللہ تعالیٰ کا حکم آگیا، تو وہ اسے ریزہ ریزہ کر ڈالیں گے۔ اللہ کے وعدے کے مطابق قیامت کے قریب یاجوج ماجوج کا ظہور ہوگا۔ حدیثِ مبارکہؐ ہے کہ یاجوج ماجوج ہر روز اس دیوار کو کھودتے ہیں اور پھرکل کے لیے چھوڑ دیتے ہیں، لیکن جب اللہ کی مشیت اُن کے خروج کی ہوگی، تو پھر وہ کہیں گے کہ کل اِن شاء اللہ اس کو کھودیں گے اور پھر دُوسرے دن وہ اس سے نکلنے میں کام یاب ہوجائیں گے اور زمین میں اس قدر فساد پھیلائیں گے کہ لوگ قلعہ بند ہوجائیں گے۔ یہ آسمانوں پر تیر پھینکیں گے، جو خون آلود لوٹیں گے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ ان کی گُدیوں پر ایسا کیڑا پیدا فرمادے گا، جس سے اُن کی موت واقع ہوجائے گی۔ (جامع ترمذی،3153)۔ (مسند احمد 511/12)۔
اتنا عظیم الشان کارنامہ انجام دینے کے بعد بھی ذُوالقرنین کی زبان پر کوئی کلمۂ فخر نہیں آیا، بلکہ انھوں نے کہا ’’یہ میرے پروردگار کی مہربانی ہے۔ جب میرے پروردگار کا وعدہ آپہنچے گا، تو اسے (ڈھا کر) ہم وار کردے گا۔ اور میرے پروردگار کا وعدہ سچّا ہے۔‘‘ (سورۃ الکہف،98)۔
سدِّ ذُوالقرنین اور دُنیا کی دیگر دیواریں: مولانا مفتی محمد شفیع ’’معارف القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مولانا انور شاہ کشمیری نے اپنی کتاب ’’عقیدۃ الاسلام فی حیاۃ عیسیٰ علیہ السلام‘‘ میں یاجوج ماجوج اور سدِّ ذُوالقرنین کا حال اگرچہ ضمنی طور پر بیان فرمایا ہے، مگر جو کچھ بیان کیا ہے، وہ تحقیق و روایات کے اعلیٰ معیار پر ہے۔
آپ نے فرمایا کہ مفسد اور وحشی اِنسانوں کی تاخت و تاراج سے حفاظت کے لیے مختلف بادشاہوں نے اپنے زمانوں میں مختلف مقامات پرایک نہیں، بہت سی جگہوں میں سدّیں یعنی دیواریں بنائیں۔ اُن میں سے زیادہ بڑی اور مشہور دیوارِ چین ہے۔ جس کا طول ابوحیان اُندلسی (دربارِ ایران کے شاہی مؤرّخ) نے بارہ سو میل بتایا ہے۔ سدِّ ذُوالقرنین کے سلسلے میں شاہ صاحب نے کوہ قاف قفقاز کی سدّ (دیوار) کو ترجیح دی ہے۔‘‘ (معارف القرآن،650، 653)۔
قارئینِ محترم! ذُوالقرنین کے قصّے میں ہم نے متضاد آراء کا مشاہدہ کیا، مثلاً کہیں ذُوالقرنین کو عربی کہا گیا، تو کہیں عجمی ایرانی۔ کسی نے اس کی بادشاہت کا دَور دو ہزار سال قبل مسیح سے پہلے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے زمانے میں ظاہر کیا، تو کہیں دارا سے جنگ اور 539قبلِ مسیح میں بابل کا فاتح قرار دیا۔ کسی نے اسے ولی کہا، تو کسی نے نبی۔ جب کہ اس بات پر اتفاق تھا کہ ذُوالقرنین اللہ کا نیک اور مومن بندہ تھا، لیکن تیرہ سو سال تک لوگ ایک مشرک بادشاہ سکندراعظم کو ذُوالقرنین سمجھتے رہے۔
ذُوالقرنین کے نام و نسب اور زمانے وغیرہ سے متعلق یہ تمام روایات ان قدیم تاریخی روایات کا مجموعہ ہیں، جنہیں یہودیوں نے اپنی مرضی و منشاء کے مطابق تبدیل کرکے تحریر کیا ہے۔ یہودی، ذُوالقرنین کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ذُوالقرنین وہ عظیم بادشاہ ہے، جس نے بنی اسرائیل کو539قبلِ مسیح میں بابل کی جابر حکومت کے جبر و قہر سے نجات دلائی اور یروشلم (فلسطین) آزاد کروایا۔ اگر ذُوالقرنین کا حسب نسب، نام، زمانہ جاننا اُمت کے لیے ضروری ہوتا، تو اللہ تعالیٰ قصّے کے دوران ہی مطلع فرما دیتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکہف کے شروع میں فرما دیا کہ خواہ مخواہ غیرضروری باتوں کی کھوج لگانے سے پرہیز کرو اور اس پر بحث مباحثہ بھی نہ کرو، یہ سب غیرضروری باتیں ہیں۔ یعنی جو باتیں اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مبہم رکھی ہیں، اُنھیں مبہم ہی رہنا چاہیے۔ (ختم شد)