اگرآئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کا کریڈٹ کسی کو جاتا ہے تو وہ وزیراعظم شہباز شریف ہیں، جنہوں نے آخری وقت تک کوشش کی۔ وزارتِ خزانہ اور آئی ایم ایف کے لوگ کہتے ہیں کہ شہباز شریف کی آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے جو ذاتی ملاقاتیں ہوئیں، انکے ذریعے بجٹ میں تبدیلیوں کےبعد آئی ایم ایف کی طرف سے نو ماہ کیلئے اسٹینڈ بائی منصوبے کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر فراہم کیے جانےکا معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت نگران حکومت، انتخابات اور اگلی حکومت کے قیام کے دوران ملک میں معاشی استحکام موجود رہے گا اور جو دیوالیہ پن کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا وہ ٹل جائے گا۔
فہد حسین نے اپنے اتوار کے کالم میں بتایا کہ شہباز شریف شروع سے اس بات پر آمادہ تھے کہ آئی ایم ایف پروگرام ضروری ہے حالانکہ ان کی اپنی کابینہ میں اس حوالے سے دو آرا موجود تھیں کہ آیا آئی ایم ایف پروگرام میں جانا چاہیے یا نہیں اور اس کی سیاسی قیمت (ن)لیگ کو ادا کرنی چاہیے یا نہیں۔ اسی وجہ سے مفتاح اسماعیل کو وزارتِ خزانہ کے عہدے سے ہٹایا گیا جو کہ (ن)لیگ کا بہت غلط فیصلہ تھا۔ دوسری جانب اسحاق ڈار، جو نواز شریف کے کہنے پر پاکستان لوٹے اور وزارتِ خزانہ سنبھالی،نے ملک، معیشت اور انڈسٹری کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ بار بار یہ لکھ چکا ہوں کہ یہ امر قابلِ افسوس ہے کہ جو چیز ملکی مفاد میں ہوتی ہے وہ سیاسی مفاد میں نہیں ہوتی۔ پاکستان کو معاشی استحکام کی اشد ضرورت تھی، جو آئی ایم ایف کے بغیر ممکن نہیں۔
عوام کو بھی آئی ایم ایف کے بارے میں غلط تاثر دیا جاتا رہا اور آئی ایم ایف کو ایک وِلن بنا کر پیش کیا جاتا رہا، اب بھی پی ٹی آئی کے حامی سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کر رہے ہیں کہ بھیک پر مبارک باد! حالانکہ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام تحریک انصاف کا ہی لیا ہوا ہے اور تب تحریک انصاف کی قیادت اور حامی آئی ایم ایف پیکیج کو بہترین معاشی منصوبہ بنا کر پیش کرتے تھے۔ معاشی پروگرام کے بدلے میں آئی ایم ایف ہم پر جو شرائط لاگو کرتا ہے اور جن اصلاحات کا تقاضا کرتا ہے، وہ ہمارے ہی مفاد میں ہیں۔ معیشت کا استحکام ہمارے مفاد میں ہے۔ گردشی قرضے کم کرنا ہمارے مفاد میں ہے۔ سرکاری سرپرستی میں چلنے والی انٹر پرائزز کا خسارہ کم کرنا ہمارے مفاد میں ہے۔ پاکستان میں ٹیکس کی شرح ویسے ہی بہت کم ہے، اس میں اضافے کی ضرورت ہے اور یہ بھی ہمارے مفاد میں ہے۔ بجٹ کو سرپلس رکھنا ہمارے مفاد میں ہے۔ ہم آئی ایم ایف کو دشمن اور اس کے پروگرام کو بھیک سمجھ کر اپنے ساتھ ہی زیادتی کرتے ہیں۔ ہم آئی ایم ایف کے ممبر ہیں اور آئی ایم ایف کا مقصد ممبر ممالک کو ڈیفالٹ سے بچانا اور ان کے معاشی نظام میں استحکام لانا ہے۔
دوسرا جو غلط لفظ ہم نے سیکھا ہے وہ ریلیف ہے۔ کہ عوام کو ریلیف کب اور کیسے ملے گا۔ اس ریلیف کے چکر میں ہم بنیادی معاشی اصلاحات نہیں کر پاتے۔ ہماری معاشی منصوبہ بندی ہمیشہ سے کافی خراب رہی ہے حالانکہ حکومتی اخراجات میں کمی کے ساتھ ساتھ کاروباری اور سرمایہ کار طبقے کو سہولتیں فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ قلیل المدتی فائدے یا ریلیف کیلئے ہم ملک کیلئے طویل المدتی معاشی اصلاحات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ جس کی ایک بڑی مثال پٹرولیم مصنوعات پر دی جانی والی سبسڈی ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف نے اقتدار سے الگ ہونے سے پہلے پٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر سبسڈی دے کر ایسی معاشی سرنگیں بچھائیں کہ ملک میں شرح سود 22فیصد اور مہنگائی 38فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اس وقت ہمیں وقتی ریلیف نہیں بلکہ معاشی استحکام اور ایسی معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے جوکہ دیر پا ہوں۔
معیشت کی اصلاح کیلئے سخت فیصلے ضروری ہوتے ہیں۔ اس کی مثال دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کا مہنگائی پر قابو پانے کیلئے شرحِ سود میں اضافہ ہے۔ بالخصوص مغربی ممالک کے مرکزی بینک شرحِ سود میں تیزی سے اضافہ کر رہے ہیں۔ اس سے عام آدمی پر بوجھ بڑھا ہے جس سے اُس کی گزر اوقات مشکل ہو چکی ہے، لیکن اگر ایسا نہ کیا جاتا تو مہنگائی مزید بے قابو ہو جاتی۔ اس لیے اس وقت ریلیف نہیں معاشی استحکام ضروری ہے۔
اسحاق ڈار صاحب کی ناقص معاشی پالیسیوں، جیو پالیٹکس کے الزامات اور آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو یا نہ ہو، ہمیں کوئی پروا نہیں جیسے غیر ذمہ دارانہ بیانات پر پہلے بھی تنقید ہوتی رہی ہے۔ (ن)لیگ کے پچھلے دورِ حکومت میں ان کی طرف سےڈالر کو مصنوعی طور پر قابو میں رکھنے اور ادائیگیوں کے توازن کا بحران چھوڑنے کی وجہ سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا تھا۔
جب تک آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہیں ہوا تھا، حکومت اپنی تمام تر توجہ اسی پر مرکوز کیے ہوئے تھی، اب آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بعد بے حد ضروری ہے کہ ہم اپنی معیشت کو درست سمت میں گامزن کرنے کیلئے سخت اور ٹھوس اقدامات کریں۔ یہ اقدامات کسی ایک حکومت تک محدود نہیں ہونے چاہئیں۔ ہم ملکی معیشت کو اُسی طرز پر نہیں چلا سکتے جیسا کہ ماضی میں چلائی جاتی رہی ہے، اس ضمن میں خوش آئند امر یہ ہے کہ شاید تاریخ میں پہلی بار یہ بات اہم حلقوں کو بھی سمجھ آنے لگی ہے۔ معاشی تنزلی کے باعث شہباز شریف حکومت پر بڑی تنقید ہوئی، بالخصوص ڈار صاحب کے وزارتِ خزانہ سنبھالنے کے بعد۔ یہ حکومت بالکل بے بس اور نااہل نظر آنے لگی تھی۔ شہباز شریف کی آخری وقت تک اَنتھک محنت سے، جس میں ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کا بھی اہم کردار ہے، آئی ایم ایف پروگرام بحال ہوتا نظرآرہا ہے لیکن اگر اس موقع کو ضائع کیا تو شاید ہمیں کوئی دوسری لائف لائن نہ ملے۔ یہ ڈر موجود ہے کہ روانگی سے پہلے حکومت عوام میں مقبولیت بڑھانے کی خاطر ریلیف کے چکر میں ایسے اقدامات کرلے جو پروگرام سے پھر پاکستان کو باہر کر دیں۔ اگر ایسا ہوا تو ملک کے لیے تباہ کن ہو گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)