بھارتی سپریم کورٹ نے پیر کو بالآخر آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے ایک 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا۔
یاد رہے کہ آرٹیکل 370 مقبوضہ جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہےجوکہ 1947ء میں بھارت کے ساتھ اس کے الحاق کی کلید تھا۔
اب چیف جسٹس دھننجیا یشونت چندرچوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ جوکہ جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گاوائی اور جسٹس سوریہ کانت پر مشتمل ہے، 11 جولائی کو اس کیس کی سماعت کرے گا۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف 20 سے زیادہ درخواستیں دائر کی گئی ہیں، یہ درخواستیں شاہ فیصل اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئی ہیں۔
بھارتی سُپریم کورٹ کے اس فیصلے کا مقبوضہ جموں اور کشمیر کے سیاسی رہنماؤں عمر عبداللّٰہ اور محبوبہ مفتی نے خیر مقدم کیا ہے۔
واضح رہے کہ 5 اگست 2019ء میں مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس سے ریاست کا درجہ چھین لیا تھا اور مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارتی یونین کا علاقہ قرار دیا تھا اور وہاں کشیدگی پھیلنے کے خطرے کے پیشِ نظر وادی میں غیر معمولی تعداد میں بھارتی فوجیوں کی تعیناتی بھی کی گئی تھی۔
یہ اقدام اس وقت اُٹھایا گیا جب بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے راجیہ سبھا میں آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کی قرارداد پیش کی۔
پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بھارتی اقدام کو غیر قانونی اور علاقائی امن و سلامتی کے لیے تباہ کُن قرار دیا تھا۔
بھارتی حکومت کے اس اقدام سے ملک کے باقی حصّوں کے لوگوں کو مقبوضہ جموں اور کشمیر کے علاقے میں جائیداد حاصل کرنے اور وہاں مستقل طور پر آباد ہونے کا حق بھی دے دیا گیا جوکہ وادی کے لوگں کے لیے قابل قبول نہیں تھا اور یہ بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بھارتی آئین کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔