یہ مصرع کس پر صادق آتا ہے ۔ دور کیوں جائیں جو بائیڈن اور مودی نے جس طرح منی پور اور کشمیر میں خون ریزی سے آنکھیں چرا کر فوجی معاہدے کئے ہیں،ان پہ دنیا تھو تھو کر رہی ہے۔ یورپین یونین کا اجلاس جس میں بے شمار ملکوں نے یوکرین کو دوبارہ آباد کرنے کیلئے کروڑوں ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہےلیکن پیرس میں ہونےوالی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس جس میں 40ملکوں کے سربراہ شریک ہوئے بنا کسی اعلان کے ختم ہو گئی۔ ابھی اور بہت سی مثالیں مصرعے کی وضاحت میں دی جا سکتی ہیں۔ مثلاً سینیٹ نے اپنے سابقہ اورموجودہ نہ صرف چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین بلکہ اسٹاف کو بھی تا عمر پینشن کے علاوہ 12 مرلےکا گھر اور بجلی مفت میں دینے کا بل پاس کیا ، اس کو پاس کرنیوالوں میں جب رضا ربانی کا نام دیکھتی ہوں تواپنی زبان کاٹ لینے کو جی کر رہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو قوم کی خدمت کرنے آئے تھے اور قوم کا خزانہ لوٹنے کے قانون بنا رہے ہیں۔ جبکہ خزانے میں کچھ نہیں ،شرم آتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ شہباز شریف کو تین مرتبہ کرسٹینا (آئی۔ ایم۔ ایف) کی چیئرپرسن کی منتیں کرنا پڑیں اور یہ سب رعایتیں اس شرط پر تھیں کہ آئی ایم ایف کے اجلاس میں توثیق کی جائیں۔ اسی سلسلے میں آپ نے پڑھا ہو گا کہ اول تو کراچی میں عمومی طور پر چودہ گھٹنے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ معطل ہونیوالے سدرن گیس کے چیئرمین ماہانہ 55لاکھ روپے دیگر مراعات کے علاوہ لے رہے ہیں۔ اب مجھ میں سکت نہیں کہ دوسرے نیم سرکاری اداروں کے سربراہوں ، ججوں اور جرنیلوں کی تنخواہ اور دیگر مراعات کی تفصیل میں جائوں کہ آج ایک جہاز میں پارلیمنٹ کے ممبران اپنی ٹکٹ خرچ کر کے گئے ہیں۔ ظاہر ہے جہاز کا پیٹرول بے حساب۔ ان کا پاکستان ہائوس میں ٹھہرنا بے حساب۔ حاجی بن کر واپس آئینگے۔ کس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ولیم ڈیمپل، برسوں سے دہلی میں رہتےہیں۔ مغل دور پرلکھ چکے ہیں اور اب تازہ کتاب میں لکھا ہے کہ برطانوی فوجی کس طرح برصغیر کی دولت لوٹ کر لے گئے اور اپنے ہوا خوروں کو کیسے اورکتنے مربعے الاٹ کئے۔ یہی لوگ اب تک پاکستان میں حکومتی دستوں میں شامل رہے بلکہ قوم کے سینے پرمونگ دلتے، نسل در نسل شاہانہ راہداریوں میں نظر آتے ہیں۔ لامبا صاحب جو پاکستان میں سفیر رہے ہیں۔اپنی تازہ کتاب میں مثالیں دے کر، انہوں نے لکھا ہے کہ پاکستان میں کس طرح جنونی اورمذہبی سیاست کے ذریعے حکومتیں چلتی رہیں ۔ جوکوئی دانشور بھی بولا اس کو کبھی لا پتہ اورکبھی آرمی ایکٹ کے تحت سزا دی جاتی رہی اور بدنصیب نوجوان جنہیں ورغلایا گیا تھا 9مئی کے جاں سوز حادثے کے ذمہ دار ہیں۔ وہ بھی اسی سولی پر لٹک رہے ہیں اور ججز تک کہہ رہے ہیں کہ سویلین کو بے شک سخت سزا دیں،مگر پاکستان کے سول قوانین کو فراموش نہ کیا جائے۔ ڈیمپل نے اور ایک ہندو پروفیسر نے یہ بھی لکھا ہے کہ انڈیا میں مودی کے گزشتہ دورِحکومت میں گائے کو کیسے مذہبی ہتھیار کے طور پر ا ستعمال کیاگیا۔ اب بھی مسلمانوں کے گھروں پرجا کرگھر خالی کرنے یا گھرجلا دینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ انہیں یاد نہیں ہے کہ مولانا آزاد نے جب متعصب سلوک دیکھا تو کہا تھا ’’مسلمانوں کے خلاف نہیں، انگریزوں کے خلاف بولو جو ہم پر مسلط رہے ۔‘‘
انسانی اسمگلنگ آج کل ایسے زیر بحث ہے جیسے یہ کوئی کل کی بات ہو۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے سارے سینئر آرٹسٹ جن میں ڈانسرز، گلوکار اور ساز بجانے والےایک دو افراد کوپاکستان سے لے جا کر، یورپ اور امریکہ میں چھوڑ آتے تھے۔ یہ کام اس حد تک پھیلا اور بدنام ہوا کہ جب 1997میں، میرے ساتھ امریکہ میں یوم آزادی ِپاکستان کی تقریب میں پر فارم کرنے جا رہے تھے تو ان سب کو ویزا سامنے بٹھا کر اور ساز بجا کر دکھانے کے بعد اس شرط پر دیا گیا کہ میں (جو اس طائفےکی ہیڈ تھی) ان کے واپس پہنچنے کے بعد دوبارہ ان کے پاکستان پہنچنے کی تصدیق کرونگی۔ مگریہ سلسلہ تھما نہیں یہ بھی تھا کہ ہمارے کچھ آرٹسٹوں کی مسلسل ان حرکتوں کے باعث انہیں بین بھی کر دیا گیا۔ انسانی اسمگلنگ کا زمانہ اس وقت شروع ہوا تھا جب بھٹو صاحب نے مسلم ریاستوں کو مزدور بھیجنے کا معاہدہ کیا تھا۔ پھر چل سو چل مگر آج بھی چین، جاپان اور جنوبی کوریا میں جو لوگ نوکریوں کیلئے منتخب کئے جاتے ہیں۔ ان کو علاقے کی زبان تین ماہ میں سکھا دی جاتی ہے۔ پاکستان سے جاتے وقت ، ہر سفارت خانہ، ان کو نام بنام ایئر پورٹ پر پکارتا ہے۔ ہمارے عوام بہت نیک دل ہیں۔ ہر دفعہ کبھی بندہ اور کبھی منشیات لے جانا نہیں بھولتے۔
جوہمارے300نوجوان انسانی اسمگلروں کے ذریعے بھاری رقمیں دے کر گئے اور نامراد ٹھہرے ۔ ان کو کوئی وہ اشتہار دکھاتا جہاں انگلینڈ اور آسٹریلیا نے سینکڑوں اسامیوں کیلئے درخواستیں مانگی تھیں ۔ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ پلمبر یا ایسی چھوٹی نوکری کیلئےایم اے پاس بھی درخواست دیتے ہیں۔ چند مہینے پہلے، پولیس میں بھرتی کا امتحان تھا۔اس میں سینکڑوں وکیل اورایم اے پاس شامل تھے۔ہرنئی حکومت نئے تیور کے ساتھ پورٹس سے لے کر ایئر پورٹس تک ٹھیکے پر دیتے ہوئے اعلان بھی کرتی ہے کہ اس طرح ہم کروڑوں کمائیں گے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر یہ پاکستانیوں پہ حکومت کرنے اور لوگوں کو نوکریاں دینے کا جھنجھٹ کیوں رکھا ہوا ہے۔ ابھی تو آزادانہ تجارت کا کہا گیا ہے۔ اب دیکھئے گا کہ روپیہ کہاں اور ڈالر کہاں جائے گا۔ دنیا فری ٹریڈ سے عاجز ہو کر ملکوں کی حد بندیوں میں محصور ہوئی تھی۔ اب آگے آگے ٹیکسوں کی بوچھاڑ دیکھئےگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)