• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ پتہ چل گیا، ان چار چھٹیوں میں کہ میڈیا والے جن لوگوں کو قطعی گانا نہیں آتا، ان سے گانے کا کہہ کر ہمیں مسلسل بکروں کی سی آوازیں سناکر یاد کراتے ہیں کہ یہ بقرعید تھی۔ غیر ملکی میڈیا، مسلسل گوشت کم کھانے کے فائدے بتا رہا تھا اور ہماری سجی سجائی لڑکیاں تکہ بوٹی پکانا ایسے سکھا رہی تھیں جیسے ہمارے گھروں میں پہلی دفعہ گوشت آیا ہے۔ ویسے یہ تو سچ ہے کہ غریبوں کو گوشت اگر مل جاتا ہے تو انکی واقعی عید ہوجاتی ہے۔

غیر ملکی میڈیا میں تقریباً ہر چینل پر عوامی سطح پر ججوں کے خلاف آوازیں بہت سنائی دیں۔ وہاں نوجوانوں نے عوامی عدالتیں لگانی بھی شروع کی ہیں، ہمارے ملک میں تو ججوں کے فیصلے ابتدا ہی سے تاریخ کیا بلکہ دنیا کی تاریخ میں ہر فیصلے کے نیچے سرخ لکیر لگی ہے۔ اس زمانے میں جبکہ جلد ہی نگران حکومت آنے کے امکانات (شاید) ظاہر ہوتے نظر آتے ہیں۔ دل کرتا ہے پاکستان میں جو65%نوجوان ہیں۔ وہ الیکشن لڑنے کو بعد میں، پہلے عوامی عدالت لگاکر اپنے اپنے علاقے کے گزشتہ منتخب ممبران کا باقاعدہ سنجیدگی سے جائزہ لیں کہ انہوں نے فنڈز کہاں اور کیسے استعمال کئے؟ یہ بھی دست عرض ہے کہ شریف برادران، شجاعت برادران اور زرداری خاندانوں سے بھی سوال کریں کہ اپنے دور میں کمائی اضافی رقم سرکاری خزانے میں جمع کرائیں۔ جو چار سال حکومت میں رہے،ان کا بھی نوجوان نسل احتساب کرے۔ جمہوریت کے نام پر جو پراپرٹی ٹائیکون بنے ہیں ان سے بھی رقمیں نکلوانے کیلئے جلوس نکالیں، عوامی جلسے کریں۔جنہوں نےسیاست کے نام پر اور گھر کی بیگمات کے نام ،گھروں کے بستروں میں ڈالر اور پائونڈ چھپائے ہیں۔ ان پر بھی نگاہ رکھیں۔ میں صرف نوجوانوں سے عرض اس لئے کررہی ہوں کہ پٹواری، تحصیلدار، ضلعی ججوں اور پولیس کے چھپے ہوئے خزانوں کو عیاں کرنے کیلئے ایسی عوامی تحریک چلائیں جس میں جھگیوں والے، مزدور، کسان اور فیکٹریوں میں کام کرتے مرد اور عورتیں شامل ہوں۔ ایک شرط یہ ہو کہ شامل ہونے والے اپنا کھانا ساتھ لائیں، کوئی دعوت کا منظر جہاں نظر آئے، اس کا بائیکاٹ کریں۔ دنیا کے سارے ترقی یافتہ ممالک میں سامان لادنے اور لیجانے کیلئے مشینیں موجود ہیں۔ ہمارے یہاں چاہے کراچی کے بوہری بازار، لاہور کے شاہ عالمی، ملتان کے حسین آگاہی اور حیدرآباد کے علاوہ دوسرے عام ضلعوں میں انسانی لیبر جس میں عمر کی تخصیص نہیں۔ اس طرح قلی ہوں کہ راج مزدور، سب کاموں میں ہمارے علاوہ انڈیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا ہیں، سب عورت مرد مزدوری کرتے ہیں۔ سائیکل رکشہ ایک طرف، سامان سے بھرے ریڑھے بزرگ اور بچے ڈھو رہے ہوتے ہیں۔ واہگہ سرحد پہ دونوں طرف غریب بوڑھے سامان اٹھاتے ہیں، میں نے سب سے وجہ پوچھی۔ وجہ بھی ایک ہے بچے اپنے اپنے گھر کے ہوگئے۔ ہم بوڑھوں نے بھی تو کھانا ہے۔ جو بچہ نشئی ہے جو بچہ معذور ہے اور جو بچہ یتیم ہے اسکا دھیان رکھنا پڑتا ہے۔

میری مائی جو کرسچن ہے۔ اسکی جیٹھانی فوت ہوئی۔ تو تینوں بھائیوں کوجنازہ اٹھانے اور اکٹھے ہوئے رشتہ داروں کو ایک دن کا کھانا کھلانے کیلئے 14ہزار فی خاندان دینا پڑے۔ اعتراض کیا تو جواب ملا ہماری برادری میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ویسے مسلمانوں میں ایک بندہ مرجائے تو پورا خاندان کم ازکم تین دن تو ٹھہرتا ہے۔ دیہات میں تو روز دیگیں، قرضے لیکر اس دن تک بنانی اور کھلانی پڑتی ہیں کہ جس دن خاندان اعلان کرے کہ آج چالیسویں کا کھانا ہوگیا۔ اب سب واپس جائیں۔ آخر یہ فرسودہ رسمیں نوجوان نسل ختم نہیں کروائے گی اور خود کام کرنے کے بجائے، غیر ملکوں میں جانے کو کھیت کھلیان فروخت کروائے گی تو پھر میں 65%نوجوان نسل سے کیوں امید کررہی ہوں، یہ عرسوں پر چڑھاوے وہی وصول کرتے ہیں جو جاگیردار ہیں۔ فصل تیار ہوتی ہے تو پہلی بوری، پیرصاحب کو بھیجی جاتی ہے۔ ہر حکومت پگڑ باندھے ان پیر فقیروں کو بلاکر جلسے کرتی اور وفاداریاں خریدتی ہے۔ فتویٰ فروش ہر نکڑ پہ مل جاتےہیں، میڈیا والوں کا بھی کارڈ اور نجومیوںکاکھیل بقول انکے، مقبول پروگرام ہوتا ہے۔ پاکستان کی نکمی خواتین سب پرائیوٹ چینلز پر قسمت کا حال بتاتی ہیں۔

میرے نوجوانو،جن خاندانوں کا میں نے ذکر کیا ہے، ذرا انکے خانوادے کی تفصیلات پر نظر ڈالو۔ یہ بہت مختصر مگر سر عت سے آگے بڑھنے والے خاندان1950کے بعد ہی کچھ اپنی محنت اور کچھ سیاسی شعبدہ بازی سے اس مقام تک پہنچے ہیں۔ باقی جو لوگ میدانِ سیاست میں پہلے سے تھے، ان میں سے زیادہ تر ، انگریزوں کے دئیے مربعوں کے باعث نمایاں ہوئے تھے۔ 75سال میں کسی حکومت کو دانشوروں سے استفادہ کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ شہباز شریف صاحب کو بہت شعر یاد ہیں مگر آپکی حکومت میں ادبیات کی اکیڈمی کیلئے کوئی سربراہ دریافت نہ ہوسکا۔ یہ جو اخبار میں آدھے صفحے کا اشتہار کبھی پنجاب اور کبھی سندھ کی طرف سےآتا ہے۔ وہ دو ہفتے بعد کس کو پیسے دینے ہوں گے۔

فرانس میں تو ایک17سالہ بچے کو پولیس نے گولی ماری، جواباً گزشتہ نو دنوں سے خوفناک مظاہرے ،جس میں دکانوں کو لوٹنے اور گاڑیوں کو جلانے کے علاوہ گھروں پر بھی حملے کئے گئے۔ ہمارے ملک کے تین سو بچے بھوک اور دم گھٹنے سے مرگئے۔ ان کیلئے کوئی جلوس نہیں نکلا میں اپنی طویل نظم کا آخری حصہ لکھتے ہوئے اس درد کو محسوس کررہی ہوں جوان گھروں میں پھوڑی بن کر دھویں کی طرح ٹھہرا ہوا ہے۔ ’’ساحل پر گورے کھڑے تھے/کالوں کو ہاتھ لگانا گوارا نہیں تھا/نیم جاں نوجوانوں نے تہ خانوں سے بے ہوش اور مردہ عورتوں کو نکالا / اب زیادہ تر جوانوں کی لاشیں مردہ خانے میں۔ڈی ۔ این۔ اے ٹیسٹ کیلئے بے بس پڑی ہیں/اللہ میاں! تم نے تو ایک فرشتے کو شیطان کہاتھا/اللہ میاں ! تم سے گلہ کیسے کروں/تمہارے نام کے پردے میں/انسانی ایجنٹوں کی شیطانیت حاوی ہے/تمہارے گھروں میں پھوڑی پڑی ہے/تم جیسے بھی ہو، جتنے بھی زندہ ہو/تمہیں تمہاری مائیں اور سارے ملک کی مائیں بلارہی ہیں/تم تو موت کا سودا کرکے نہیں گئے تھے/جو لاکھوں خرچ کرکے سمندر میں گئے تھے۔ انکو موت نے آپکڑا ۔

نوجوانو! اپنی ذمہ داری کو سمجھو وہی تماشہ مت لگنے دینا ہم جیسے بزرگ ہم سب تمہارے ساتھ ہیں یہ آئی ایم ایف تو نوماہ کیلئے ہے۔ تم نوجوان ہو ، الیکشن تم لڑو ۔ نعروں کے چکر میں مت پڑنا! ان جماعتوں کے منشور میں تمہارے لئے کوئی پلان نہیں ہے۔

تازہ ترین