• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول لوئر مال میں ہرسال اسکول کا سالانہ ڈرامہ یعنی ANIMAL PLAYہوتا تھا جسے اسکول کے طلبا بڑے شوق سے دیکھا کرتے تھے ۔ان ڈراموں میں طلبا اور طالبات ہی سارے کردار ادا کیا کرتے تھے اور بعض اسٹوڈنٹس تو بڑے پروفیشن انداز میں اداکاری کیا کرتے تھے۔اس اسکول کے ہر سال سالانہ ڈرامے میں کوئی نہ کوئی پیغام ضرور ہوتا تھا۔ بہرحال مدت ہوئی یہ روایت ختم ہوگئی ۔اس کے علاوہ کنیئرڈ کالج لاہور میں سالانہ ڈرامہ ہوتے تھے یہ روایت آج بھی برقرار ہے ۔ کوئین میری کالج میں بھی گاہے بگائے سال میں ایک آدھا ڈرامہ ہو جاتا ہے، لاہور کے تعلیمی اداروں میں سالانہ ڈرامے پیش کرنے کا آغاز انگریزوں نے کیا تھا ان کے تعلیمی اداروں میں سے بعض میں آج بھی یہ روایت برقرار ہے ۔ویسے تو لاہور میں ڈراموں کا سب سے بڑا مرکز الحمرا رہا ہے دوسرا بڑا مرکز بریڈ ہال رہا کبھی الحمرا ہال میں بڑے معیاری ڈرامے ہوا کرتے تھے آج وہاں بھی غیر معیاری ڈرامےا سٹیج ہوتے ہیں۔لاہور کا اسٹیج ڈرامہ کسی زمانے میں پاکستان کا سب سے بہترین تھا، لوگ اس کی مثالیں دیا کرتے تھے ۔الحمرا نے ایک پرانی سی کوٹھی جو پیلے رنگ کی تھی وہاں سے ڈرامے کا آغاز کیا تھا ۔ ڈاکٹر انور سجاد، نعیم طاہر اور کئی نامور لوگوں نے یہاں اسٹیج پلے کئے اس کے علاوہ کسی زمانے میں عجائب گھر کے ساتھ میواسکول آف آرٹس کے برابر میں ایجوکیشنل آڈیٹوریم میں بھی ڈرامے ہوا کرتے تھے ثقافتی لحاظ سے اور فنون لطیفہ کے حوالہ سے لاہور بڑا RICHشہر رہا ہے مٹی کے خوبصورت برتن بنانے والوں سے اعلیٰ معیار کی پینٹنگز اور عمارتوں تک اس شہر نے بڑے ہنرمند لوگ پیدا کئے ہیں۔

گورنمنٹ کالج لاہور جس کو یونیورسٹی بنا کر اس کی اصلی ثناخت کو ختم کر دیا گیا ہمیں ہمیشہ اس بات پر اختلاف رہایہ بھلا کیا نام ہوا جی سی یو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ،جی سی یو، حالانکہ اس کا تاریخی نام جی سی تھا اور دنیا بھر میں یہ نام ایک شناخت تھا بہرحال اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔لاہور شہر موضوعات اور بات کرنے کے حوالے سے اتنا زیادہ مواد رکھتا ہے کہ رجسٹر کےرجسٹر بھرجائیں مگر اس شہر کی باتیں ختم نہیں ہونگیں۔گورنمنٹ کالج لاہورکے ڈرامیٹک کلب کا شمار کبھی لاہور ڈرامیٹک کلبوں میں نمبر1پر ہوتا تھا اور یہ سال میں دو مرتبہ ڈرامے اسٹیج کیا کرتا تھا۔اس ڈرامیٹک کلب نے فن کی دنیا کو بہت نامور آرٹسٹ بھی دیئے ۔قیام پاکستان سے قبل گورنمنٹ کالج کے ڈرامیٹک کلب کے ڈرامے پورے لاہور میں مشہور تھے۔ایک طرف پروفیسر سوندھی جیسے زیرک پرنسپل، دوسری طرف احمد شاہ بخاری (پطرس بخاری) حکیم احمد شجاع، سید امتیاز علی ،نعیم (معروف براڈ کاسٹر یاسمین طاہر کے میاں) جیسے قابل لوگوں کی وجہ سے گورنمنٹ کالج کا اسٹیج سجا ہوا تھا۔نعیم طاہر ماشااللہ حیات ہیں اور اس وقت نوے برس کے قریب عمر ہیں پروفیسر سوندھی کے نام پر آج بھی گورنمنٹ کالج کی ایک سوسائٹی کام کرتی ہے آغا حشرشورش کاشمیری کے ڈرامے بھی گورنمنٹ کالج لاہور کے اسٹیج پر ہوا کرتے تھے ۔گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی ڈراموں کے علاوہ کئی دوسری زبانوں کے ادب کے ڈرامے بھی ترجمہ کرکے دکھائے جاتے تھے۔ بخاری آڈیٹوریم کے بننے سے قبل یہ ڈرامے کالج میں مختلف جگہوں اور اولڈ ہال میں اسٹیج کئے جاتے تھے ۔گورنمنٹ کالج لاہور کے اولڈ ہال کا شمار بلکہ لاہور کے کسی بھی تعلیمی ادارے کا ہال اس جیسا خوبصورت نہ تھا ۔یہ لکڑی کے فرش کا تھا جو سو سال تک رہا پھر کسی بدذوق پرنسپل نے اس لکڑی کے تاریخی فرش کو اکھاڑ کر سفید پتھر لگوا دیا ۔حالانکہ ہم خود اس اولڈ ہال کے لکڑی کے فرش پر بیڈمنٹن کھیلتے رہے ہیں اور سال اول میں بیڈمنٹن کی بنیاد پر جو داخلے ہوتے تھے ان کے ٹرائل بھی اسی اولڈ ہال میں ہوتے تھے بیڈ منٹن کے کئی میچ اس ہال میں ہوئے کیا خوبصورت ہال تھا جس میں اس کے قیام سے 1980تک مختلف کھیلوں کی ٹیموں کے گروپ فوٹوز چاروں طرف لگے ہوتے تھے یہ بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کا ایک اپنا ہی خوبصورت نظارہ تھا اس اولڈ ہال کے اوپر گیلری ہے جہاں کبھی پروفیسر خالد جغرافیہ کی کلاس لیا کرتے تھے کیا نفیس انسان تھے ہم ان گیلریوں میں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے لکڑی کے فرش والی یہ گیلریاں بہت مضبوط تھیں کالج کے ٹاور کی کیا شان تھی ۔خیر آتے ہیں اپنی اصل بات کی طرف آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہو گی کہ پنجاب یونیورسٹی کے سینٹ ہال (اولڈ کیمپس)کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے خوبصورت تاریخی ہال، کنیئرڈ کالج ،علامہ اقبال میڈیکل کالج، فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی ، لاہور کالج، کوئین میری کالج، وینٹریزی یونیورسٹی، سنٹرل ماڈل اسکول اور کئی دیگر اسکولوں میں اسٹیج ڈرامے ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہوتے رہتے ہیں مگراب ان میں وہ پہلےوالی بات نہیں ۔

پنجاب یونیورسی کا اولڈ کیمپس میں سینٹ ہال بڑا تاریخی ہے جہاں کبھی ڈرامے اور موسیقی کے پروگرام بھی ہوتے تھے 18فروری 1935ء کو رابندر ناتھ ٹیگور کے اعزاز میں اس ہال میں ڈنر دیا گیا تھا قائداعظم ؒ اور علامہ اقبالؒ کئی مرتبہ اس تاریخی ہال میں تشریف لائے کہا جاتا ہے موسیقی کے ایک بڑے مشہور استاد پروفیسر نرائن رائو دیاس نے 30ستمبر 1938ء کو یہاں محفل موسیقی منعقد کی تھی۔

قائد اعظمؒ لاہور کے میکلوڈ روڈ پر واقع صنوبر سینما تشریف لائے تھے اس وقت اس کا نام گلوب تھیٹر تھا حیرت کی بات یہ ہے کہ لاہور میں میاں میر چھائونی میں بھی ایک گلوب سینما تھا جو کبھی ہمارے خاندان کی ملکیت میں تھا میکلوڈ روڈ والے گلوب تھیٹر جس کو کبھی بھارت اور پھر صنوبر سینما پھر ایمپائز سینما کے نام بھی دیئے گئے ،ایم سی اے ہال میں بھی کبھی ڈرامے پیش کئے جاتے تھے البتہ یہ سیاسی جلسوں کے لئے بڑا مشہور رہا، لاہور کی مال روڈ اور موچی دروازہ سیاسی جلسوں اور جلوس کے لئے ہمیشہ سے مشہور رہا (جاری ہے )

تازہ ترین