• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

یقین رکھیے! ہمارا وقت بھی بہت جلد آئے گا، ان شاءاللہ۔ پاکستان دنیا کے اُفق پر ترقی کرتے ممالک کی صف میں روشن تارا بن کر ابھرے گا۔ ہم سب ایک بات پر تو متفق ہیں کہ پاکستان کی تخلیق اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے۔ اس کے وجود کا تاقیامت قائم و دائم، مستحکم رہنا کسی خاص مقصد کے تحت ہے۔ وہ مقصد بالکل واضح ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلامی ممالک کے اتحاد کا سبب بنے۔ یہاں سے دنیا کی ترقی کی نت نئی شاہراہیں کھلیں۔ میرے یقین کا سبب اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد یہ اطلاعات ہیں جو حقیقت بنتی نظر آرہی ہیں۔ دشمن لاکھ بُرا چاہے وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے کہ سی پیک کی راہ میں حائل عالمی رکاوٹیں ایک ایک کرکے تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔ چین نے امریکہ و یورپی ممالک کے سی پیک کے حوالے سے تمام خدشات دور کردیئے ہیں اور اب اس راہداری منصوبے میں تیسرے فریق کی شراکت داری پر کام شروع ہو چکا ہے۔ ممکنہ طور پر تیسرا فریق خلیجی ممالک یا بھارت بھی ہوسکتا ہے۔ اسی لئے وزیراعظم شہباز شریف نے مودی سرکار کو اس منصوبے میں رکاوٹیں ڈالنے کے بجائے اس سے فائدہ اٹھانے کی پیشکش کی ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ خلیجی ممالک خصوصاً متحدہ عرب امارات سی پیک انڈسٹریل زونز میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ ہے، پاکستان اور چین تیسرے فریق کی شراکت اور بین الاقوامی تعاون حاصل کرنے کیلئے وسیع تر فریم ورک پر کام کررہے ہیں۔ سی پیک منصوبے کی دسویں سالگرہ کے موقع پر والدین ، اساتذہ کرام، علماءکرام سے یہی التماس کی جاسکتی ہے کہ وہ بچوں کو مایوسی سے نکال کر ان کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کریں  کہ پاکستان کے حالات سے مایوس ہو کر ملک سے باہر نہ جائیں۔ قوموں کی زندگی میں مشکل وقت آیا ہی کرتے ہیں۔ اتحاد، ایمان، تنظیم، یقین محکم سے بڑے بڑے امتحان گزر جاتے ہیں اور وہی قومیں دنیا میں فخر سے سر اٹھا کر چلتی ہیں جو انتھک محنت سے اپنا مستقبل بناتی ہیں۔ا سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور مدارس میں زیر تعلیم بچوں، بچیوں اور نوجوانوں تک یہ پیغام پہنچائیں کہ سی پیک سے ہی ہماری اقتصادی، معاشی، سماجی ترقی کا راستہ کھلے گا۔ اس منصوبے کی کامیابی سے ہی ہمارا روشن مستقبل جڑا ہے۔ اچھی خبریں یہ ہیں کہ گوادر بین الاقوامی ہوائی اڈہ مکمل ہو چکا ہے اور ممکنہ طور پر چینی صدرشی جن پنگ پی اسی سال اس کا افتتاح کرنے پاکستان آئیں گے۔ چین کی لازوال دوستی کی داستانوں میں ایک اور نئی داستان یہ بھی ہے کہ چین نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے اور پوری پاکستانی قوم کو چین کی ممنونِ احسان ہونا چاہیے۔ اسی طرح سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے پاکستان کی جو مالی معاونت کی ہے وہ تاریخ میں اسلامی بھائی چارے کی ایک روشن مثال ہے۔ ان ممالک کی مالی مدد سے ہی آئی ایم ایف ہمیں قرضہ دینے پر آمادہ ہواہے۔ اگرچہ قرض حاصل کرنے کے یہ مراحل بڑے کٹھن، صبر آزما ہونے کے ساتھ ساتھ شرمندگی کا باعث بھی بنے لیکن مرتا کیا نہ کرتا، یہی سانس لینے کا آخری حل تھا کہ معیشت کو وینٹی لیٹر سے اتارا جائے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی راہ نکلتی نظر آرہی ہے تو وہ سی پیک ہی ہے جس سے ہمسایہ ممالک کو جوڑا جارہا ہے۔ آخری رکاوٹ بھارت ہے۔ جسے ہرممکن طور پر سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے ایجنڈے سے باز آجائے اورخطے میں غربت کے خاتمے میں سی پیک کا حصہ بن کر دنیا کو امن و خوش حالی کا پیغام دے۔ سی پیک منصوبے کے تحت چین تجارت کے فروغ کے ساتھ ساتھ پاکستان میں زراعت، لائیو سٹاک، ڈیری فارمنگ اور آئی ٹی کے شعبے میں بھرپور تعاون کررہا ہے۔ شاہراہ ریشم کے ذریعے تاریخ میں پہلی بار فیصل آباد سے مال بردار گاڑیوں کا ایک قافلہ اعلیٰ کوالٹی کے کپڑے کی پہلی ٹرانزٹ کنسائنمنٹ پاکستان ، چین ، کرغستان، قازقستان کے درمیان چار فریقی ٹریفک ان ٹرانزٹ ایگریمنٹ (QTTA )کے تحت کامیابی کے ساتھ قازقستان پہنچ چکی ہے۔ اسے ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔ اس نئی زمینی راہداری سے مال بردار گاڑیاں صرف پانچ دن میں قازقستان کے دارالحکومت الماتے پہنچ جائیں گی۔ یہ نئی راہداری علاقائی تجارت، سیاحت و روابط کے نئے باب کھولے گی۔ امید سے بھری اطلاعات یہ بھی ہیں کہ چشمہ پانچ نیو کلیئر پاور پلانٹ تعمیر کرنے کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں، جس سے بارہ سو میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔گزشتہ دنوں نجی شعبے کے ذریعے آسٹریلیا سے بیس ہزار ٹن ڈی اے پی کھاد کی ایک کھیپ گوادر بندر گاہ سے افغانستان بھیجی گئی ہے۔ کھاد کی ترسیل میں گوادر فری زون میں کام کرنے والی دو نجی کمپنیوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ درہ خنجراب کے ذریعے پہلی بار ہنزہ کی میٹھی اور رسیلی چیری چین کو برآمد کی گئی ہے۔ پاکستان چین کوخشک گوشت برآمد کرنے کیلئے تیار ہے۔ تین پاکستانی کمپنیاں ماہ رواں یا آئندہ ماہ تک چین کو خشک گوشت کی برآمد شروع کریں گی۔ چین خشک گوشت کی اتنی بڑی مارکیٹ ہے کہ اگر ہم اپنے تمام جانوروں کا گوشت بھی برآمد کردیں تو چین کی مانگ پوری نہیں کرسکتے۔ہمیں جتنا جلد ممکن ہو اس بات کا احساس کرلینا چاہئے کہ اب آسمان سے کوئی من و سلویٰ نہیں اترنے والا، خود کمانے، کھانے، زندگی گزارنے کے ہنر جتنا جلدی ممکن ہو سیکھ لیں ورنہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات۔

تازہ ترین