• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جہاز نے نیروبی کے ہوائی اڈے پر اترنے کیلئے پہیے کھولے تو میں نےکھڑکی سے نیچے شہر کی جھلک دیکھنے کی کوشش کی دیکھا، ایک لمحے کے لئےیوں لگا جیسے کوئی دیو قامت ناگ پھن پھیلائے کھڑا ہے۔ پہلی مرتبہ افریقہ جارہا تھا اِس لیے دماغ میں عجیب قسم کے خیالات آ رہے تھے ، شاید اِس کی وجہ بچپن میں پڑھی ہوئی وہ کہانیاں تھیں جن میں افریقہ کا ذکر ایک پراسرار برِ اعظم کے طور پر کیا جاتا تھا،جہاں لوگ قدیم بولی میں گفتگو کرتے تھے اور جس کے گھنے جنگلات میں ایسے زہریلے سانپ پائے جاتے تھے جن کا ڈسا ہوا پانی نہیں مانگتا تھا، جوزف مگونڈا کے قبیلے کی عجیب و غریب رسومات بھی ذہن میں تھیں۔لیکن ساتھ ہی نیروبی کی وہ تصاویر بھی دماغ میں گھوم رہی تھیں جن میں یہ شہر افریقہ کے ہیرے کی طرح جگمگا تا ہوالگتا ہے۔مگر پانچ دن نیروبی میں گزارنے کے بعد میرے دماغ سے یہ تمام تصاویر مِٹ گئیں اور ایک نئی تصویر ابھری ۔یہ غربت اور نا انصافی کی تصویر تھی اورایسے شہر کی تصویر تھی جس کے ایک کونے میں لاکھوں ڈالر تنخواہ پانے والے غیر ملکی بستے ہیں اور پرلے کونے میں دنیاکی تیسری بڑی کچی بستی ہے جہاں زندگی سسک سسک کر گزرتی ہے۔

نیویارک اور جنیوا کے بعد نیروبی دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں اقوام متحدہ کا مرکزی دفتر ہے ، یہاں تقریباً پانچ ہزار غیر ملکی اور پچیس ہزار کینیا کے شہری کام کرتے ہیں ۔نیروبی کے جس علاقے میں یہ دفتر ہے وہاں دیگر ممالک کے سفارت خانے بھی ہیں جس کی وجہ سے یہ شہر کا سب سے مہنگا اور پوش علاقہ ہے۔یہ نیروبی کا پہلا روپ تھا جو ہم نے دیکھا۔ شہرکے مرکزی حصے میں زیادہ تر سرکاری دفاتر اور بلند عمارتیں ہیں ، یہاں کافی رش رہتا ہے ، نیروبی کا دِل یعنی سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ بھی یہیں ہے، شہر کےدیگر حصوں کی طرح یہاں بھی موبائل فون یا پرس چھِن جانےکا خطرہ رہتاہے ، ہمیں تو ڈرائیور نے یہاں تک کہا کہ گاڑی کے شیشے بند رکھیں کہیں کوئی اچکا کھڑکی میں سےہاتھ ڈال کر آپ کی چیزیں نہ اُچک لے، ارد گرد کی گہما گہمی دیکھ کر ہمیں اِس بات کا یقین تو نہیں آیا لیکن بہرحال ہم نے شیشے چڑھا لیے۔ یہ نیروبی کا دوسرا روپ تھا۔اگر آپ شہر سے ذراباہر کی طرف کو نکلیں تو ’رِنگ روڈ‘کے دونوں جانب آپ کو تا حد نگاہ کچی بستیاں نظر آئیں گی،اِن بستیوں میں بھی انسان بستے ہیں مگر وہ جن کی حیات جرم اور زندگی وبال ہے۔یہ نیروبی کا تیسرا روپ ہے۔

ہمارا خیال تھاکہ غربت کی وجہ سے کینیا سستا ملک ہوگا مگر یہ بات اُلٹ نکلی، کینیا کی مہنگائی نے ہمارے ہوش اڑا دیئے، یہاں کی کرنسی شلنگ ہے، دو روپے کے بدلے ایک شلنگ ملتا ہے اِس لیے حساب لگانا آسان ہے، جو چیز پاکستان میں پانچ ہزار میں ملتی ہے اُس کی قیمت یہاں تین گنا زیادہ ہے۔ غربت نے لوگوں کی مت ماری ہوئی ہے، ہمارےیہاں ہوتے ہوئے اپوزیشن لیڈر نے حکومت مخالف مظاہروں کا اعلان کیا جن میں تین لوگ مارے گئے، اِن دنوں میں ہم نے بھی کافی احتیاط کی، ہمارے میزبان کا کہنا تھا کہ یہاں پولیس کے پاس وسیع اختیارات ہیں اور وہ گولی چلانے میں زیادہ تامل نہیں کرتی۔ ہم نے دل میں سوچا کہ کینیا پولیس کے بارے میں یہ بات بھلا ہم سے بہتر کون جان سکتا ہے!

کینیا کی سب سے بہترین چیز اِس کا موسم ہے، آج کل یہاں کہنے کو تو سردیاں ہیں مگر ایسی کہ دل چاہے تو جیکٹ پہن لو اور نہ چاہے تو ٹی شرٹ چڑھا لو، کینیا میں چونکہ سردی کی عیاشی چند دن ہی رہتی ہے اِس لیے یہ بیچارے اِن دو چار دنوں میں اوور کوٹ پہن کر یوں پھرتے ہیں جیسے یورپ کی طرح یہاں بھی برفباری ہو رہی ہو۔ تاہم ہمارے لیے یہ موسم بے حد خوشگوار تھا، اِن پانچ دنوں میں ہم نے دھوپ بھی سینکی، گاڑی میں اے سی بھی چلایا اورکچھ جگہوں پر ہیٹر سے استفادہ بھی کیا۔

جس طرح دنیا کی نظروں میں جنوبی ایشیا کے باشندے دیکھنے میں ایک جیسے ہیں اسی طرح ہمیں بھی تمام سیاہ فام افریقی ایک ہی طرح کےلگتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔کینیا مشرقی افریقہ کا ملک ہے، یہ لوگ دیگر افریقی ممالک سے مختلف ہیں اورنسبتاً شائستہ ہیں،تاہم غربت کی وجہ سے اِن کاقد کاٹھ اور ڈیل ڈول ویسانہیں جیسا امریکی سیاہ فام نسل کے لوگوں کا ہے، کینیا میں عام لوگ دبلے پتلے اور چھوٹے قدکے ہیں ،عورتیں البتہ خاصی تنومند دکھائی دیں ، لیکن اللہ کو جان دینی ہے ،کوئی عورت ایسی نظر نہیں آئی جسے افریقی حسینہ کا خطاب دیا جا سکے، حسینہ تو دور کی بات کوئی قبول صورت بھی نہیں ملی۔نیروبی سے ہماری اگلی فلائٹ ایمسٹرڈیم کی تھی، صرف اُس روز ہمیں ایک سیاہ فام خاتون نظر آئی جس کے بارے میں میر نے کہا تھا کہ ’’پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے ‘‘لیکن وہ سیاہ گلاب زیادہ دیر تک ہماری نظروں کے سامنے نہیں رہا۔یہ بات میں نے لکھ تو دی ہے مگر اصولاً لکھنی نہیں چاہیے تھی کیونکہ سفر نامے کااصول ہے کہ جب آپ کسی خوبصورت عورت کا ذکر کریں تو لازماً بتائیں کہ وہ چند منٹ کی گفتگو کے بعد آپ مر مٹی تھی چاہے آپ نے اُس گفتگو میں خاتون سے ٹوائلٹ کا راستہ ہی کیوں نہ پوچھا ہو!

اگر آپ نے نا انصافی ، نا ہلی اور نالائقی کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہوتو نیروبی آکر دیکھیں۔اِس شہر میں اقوام متحدہ کا مرکزی دفتر ہے ، اِس دفتر کا بجٹ اربوں ڈالرہے ،دنیاکے بہترین ، قابل اور ذہین افراد اِس دفتر میں کام کرتے ہیں، ڈالروں میں اِن کی تنخواہیں ہیں ،ہر وقت بیٹھ کر غربت ختم کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں،مگر اِن کی کارکردگی کا حال یہ ہے کہ جس شہر میں بیٹھے ہیں وہاں سے کچی آبادیاںاور اُن میں جنم لینے والی غربت ختم نہیں کرسکے ۔مگر پڑھے لکھے ایسے نہیں سوچتے،وہ کچھ بھی سوچنے سے پہلےکسی کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرتے ہیں ، اُس سے دیدہ زیب لکھائی میں رپورٹ بنواتے ہیں ، پھر اُس رپورٹ کی روشنی میں کانفرنس اور میٹنگز کرتے ہیں جہاں پریزنٹیشنز دی جاتی ہیں، مقالے پڑھے جاتے ہیں اور یہ طے کیا جاتا ہے کہ کنسلٹنٹ کی بتائی ہوئی سفارشات پر عملدرآمد کرنے کیلئے منصوبہ بندی اگلی کانفرنس میں کی جائے گی۔آج اگر نیروبی میں اقوام متحدہ کے پانچ ہزار غیر ملکی افسران کو کہا جائے کہ اگلے ایک سال میں کچی بستی والوں کو شہر میں با عزت رہائش مہیا کرنے کا منصوبہ بنا کر اُس پر عمل کیاجائے ورنہ اُن کی تنخواہیں اور مراعات بند کر دی جائیں گی تو نیروبی کی کچی بستی بارہویں مہینے سے پہلے ختم ہوجائیں گی۔

کالم کی دُم:نیروبی کے کچھ روپ اور بھی ہیں ، اُن کا ذکر اگلے کالم میں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین