ڈاکٹر حافظ حقّانی میاں قادری
روایت کے مطابق امام الانبیاء، سرورِ کونین، پیغمبرِ آخر و اعظم حضرت محمّدﷺ ایک دن اُمّ المؤمنین حضرت اُمِ سلمہؓ کے گھر تشریف فرما تھے کہ آپﷺ کی خدمت میں ایک فرشتہ نازل ہوا، جو پہلے کبھی حاضرِ خدمت نہ ہواتھا، نبی کریمﷺ نے اُمّ المؤمنین حضرت اُمِّ سلمہؓ سے ارشاد فرمایا، دروازے کا خیال رکھنا اور کسی کو اندر داخل ہونے نہ دینا۔
دریں اثناء حضرت سیدنا امام حسینؓ نہ صرف یہ کہ گھر میں تشریف لے آئے بلکہ حجرے میں نبی کریمﷺ کی خدمتِ اقدس میں پہنچ گئے۔ نبی کریمﷺ نے اُنہیں اپنی گود میں بٹھا لیا اور پیار کیا، فرشتے نے خدمت ِنبوی میں عرض کیا کہ ’’حضورﷺ! آپ اِن شہزادے سے محبّت فرماتےہیں؟‘‘آپﷺ نےفرمایا، ’’ہاں۔‘‘ فرشتے نے عرض کیا، ’’اے اللہ کے رسولﷺ! وہ وقت بھی آنے والا ہے کہ جب آپﷺ کی اُمّت اِنہیں بے یارومددگار شہید کردے گی اور اگر آپﷺ چاہیں، تو مَیں وہ جگہ آپﷺ کو دِکھا سکتا ہوں، جہاں یہ شہید کیے جائیں گے۔‘‘ پھر اُس فرشتے نے سُرخ رنگ کی ریت آپﷺ کی خدمت میں پیش کی۔
تاج دارِ کائناتﷺ نےاُس ریت کو سونگھا اور فرمایا ’’رِیح کرب وَبَلاء‘‘ یعنی اِس سے تکلیف اور شدّتِ کرب کی بُو آتی ہے۔ پھر نبی کریمﷺ نےاُمّ المؤمنین امِ سلمہؓ کو وہ ریت عطا فرما دی، اور فرمایا ’’اے اُمِّ سلمہؓ! جب یہ ریت خون میں تبدیل ہوجائے، تو تم سمجھ لینا کہ میرا حسینؓ شہید ہوچُکا ہے۔‘‘ انہوں نے وہ ریت ایک بوتل میں ڈال کررکھ لی۔ حضرت اُمِّ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ ’’شہادتِ امام حسینؓ کے دن وہ مٹّی خون میں تبدیل ہوگئی۔‘‘
اِسی طرح کا ایک اور واقعہ کتب میں درج ہے۔ سیدنا علیؓ جنگِ صفین کے لیے ارضِ کرب و بلا سے گزرے، آپ نے لوگوں سے اُس جگہ کا نام پوچھا، بتایا گیا کہ اِس جگہ کو ’’کربلا‘‘ کہا جاتا ہے۔ سیدنا علی المرتضیٰؓ اس قدر روئے کہ داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ رفقاء نے پوچھا کہ ’’اے امیرالمومنینؓ! کیا معاملہ ہے، اِس قدر شدتِ غم…‘‘ اِس پرحضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا، ’’ایک مرتبہ میں خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ اللہ کے رسول حضرت محمّد مصطفیٰﷺ گریہ کُناں ہیں۔ مَیں نے آپ سے رونے کا سبب معلوم کیا، تو آپﷺ نے فرمایا، اے علی! جبرائیلؑ ابھی ابھی ہو کر گئے ہیں اور یہ کہہ رہے تھے کہ میرا بیٹا حسینؓ فرات کے کنارے کربلا میں قتل کیا جائے گا، پھر جبرائیلؑ نے مجھے وہاں کی مٹّی سونگھائی، مجھ سے برداشت نہ ہوسکا اور میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔‘‘ اِسی طرح ’’خصائصِ کبریٰ‘‘ میں درج ہے کہ سیدنا علی شیرِخداؓ اس مقام سے گزرے، جہاں ایک روایت کے مطابق شہیدِ کربلا سیدنا امام حسینؓ کی قبرِ اطہر ہے، تو فرمایا ’’یہ وہ مقام ہے، جہاں اُن کی سواریاں بٹھائی جائیں گی، یہاں اُن کےکجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں اُن کی شہادت ہوگی۔ آلِ محمدؐ کے کچھ نوجوان اس میدان میں اِس جگہ شہید ہوں گے۔ جن پر آسمان و زمین روئیں گے۔‘‘
حضرت اُمِّ سلمہ ؓبیان فرماتی ہیں کہ ’’مَیں نے نبی کریمﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپ رو رہےہیں اورآپ کے نوری وعنبری گیسو اورداڑھی مبارک خاک آلودہ ہیں۔ پھر فرمایا کہ ’’اے اُمِّ سلمہ! ابھی ابھی حسینؓ کو شہید کردیا گیا ہے۔‘‘ اِسی طرح حضرت عبداللہ ابنِ عباسؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نے ایک دن دوپہر کے وقت رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپ کے بال مبارک بکھرے ہوئےہیں۔ مٹّی سے اَٹے ہوئے ہیں اور آپﷺ کے دستِ مبارک میں ایک بوتل ہے، جس میں خون بَھرا ہوا ہوا ہے۔ مَیں نے عرض کیا ، یہ کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ حسینؓ اوراُس کے ساتھیوں کا خون ہے، جسے مَیں آج صبح سے جمع کررہا ہوں، لوگوں نے اِس دن کو خاص طور پر یاد رکھا، پھر کربلا سے لُٹے پِٹے قافلے واپس آئے تو معلوم ہوا کہ یہ وہی دن تھاکہ جس دن سیدنا امام حسینؓ میدانِ کربلا میں شہید ہوئے۔‘‘
امام زہریؒ بیان کرتے ہیں کہ ’’مجھ سے عبدالملک نے پوچھا، اگر تم مجھے اُس دن کی کوئی علامت بتا دو، جس دن حضرت امام حسینؓ شہید کیے گئے تو تم میری نظر میں ممتاز ہوجاؤ گے۔‘‘ زہریؒ بیان کرتے ہیں کہ ’’مَیں نے کہا کہ اُس دن بیت المقدس میں یہ حال ہوگیا تھا کہ جس پتّھر کو بھی اُٹھایا جاتا، اُس کےنیچے سےتازہ خون نکلتا تھا۔‘‘اُمِّ حکیم بیان کرتی ہیں کہ’’جب حضرت امام حسینؓ کو شہید کیا گیا، مَیں اُس وقت بچّی تھی، مَیں نے دیکھا کہ آسمان گوشت کے ٹکڑے کی طرح سُرخ ہوگیا۔‘‘ ابو قبیل بیان کرتے ہیں کہ ’’جب حسینؓ بن علیؓ کو شہید کردیا گیا تو سورج میں گہن لگ گیا، یہاں تک کہ دوپہر ہی کو ستارے نظر آنے لگے۔ ہمیں یہ خیال ہوا کہ شاید رات ہوگئی ہے۔‘‘
امام حسینؓکی شہادت کا واقعہ تاریخِ اسلام میں خون آلودہ حروف سے لکھا گیا۔ سوز کےساتھ لکھا اور اشک بار آنکھوں سے پڑھا گیا۔ شہید کربلاسیدنا امام حسینؓ خانوادئہ اہلِ بیتؓ کے ایک اہم فرد ہیں اور رسول اللہﷺ کی اپنے اہلِ بیت اور قرابت داروں سے محبّت قرآنِ مجید، فرقانِ حمید اور فرامین رسولﷺ سے ثابت ہے۔ رسول اللہﷺ اپنے اہل ِبیتؓسے محبّت کاحُکم دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں اسی کی تاکید فرماتے ہوئے، اُمّت پر لازم کیا ہے کہ وہ بھی محبّت واطاعتِ اہل بیتؓ کو اپنا شعار بنائیں۔
فرمان نبویؐ ہے،’’اللہ کی محبّت کی بناء پرمجھ سےمحبّت کرو، اور میری محبّت کی بناء پر میرے گھرانے کے افراد سے محبّت کرو۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا، ’’حسنؓ اور حسینؓ، میرے بیٹے، میری بیٹی کے بیٹے ہیں، اے اللہ! مَیں اِن سے محبّت کرتا ہوں، تُو بھی اِن کو محبوب بنا اور جو اِن سے محبّت کرے تُو بھی اُن سے محبّت فرما۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا، ’’حسنؓ اورحسینؓ جنّت کے نوجوانوں کے سردار ہیں‘‘۔
بلاشبہ، نواسۂ رسولﷺ، شہیدِ کربلا، حضرت امام حسینؓ کی عظیم قربانی خاندانِ رسالت اور اسلامی تاریخ کا ایک گراں قدر اور تاریخ ساز باب ہے۔ آپؓ نے کربلا میں اپنی جان نثار کرکے اسلام کی عزّت و عظمت کو سربلند فرمایا۔ علاّمہ محمّد اقبال نے آپؓ کے حضورخراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا خُوب کہا ؎
موسیٰؑ و فرعون و شبیرؓ و یزید
ایں دو قوّت از حیات آید پدید
زندہ حق از قوتِ شبّیری است
باطل آخر داغِ حسرت میری است
تا قیامت قطع استبداد کرد
موجِ خونِ اُو چمن ایجاد کرد
بہرِ حق در خاک و خوں غلطیدہ است
پس بنائے لا الٰہ گردیدہ است
نقشِ الّا اللہ بر صحرا نوشت
سطرِ عنوانِ نجاتِ مانوشت
موسیٰؑ اور فرعون، حسینؓ اور یزید
حق اور باطل کی یہ دو قوتیں زندگی سے رُونما ہوتی رہتی ہیں، مگر حق ہمیشہ قوتِ حسینیؓ ہی سے زندہ ہے اور باطل آخرکار داغ حسرت لےکرمرجاتا ہے۔ اُس نے قیامت تک کے لیے جبرواستبداد کو فنا کردیا۔ اس کے خون کی ایک موج نے گلستاں پیدا کردیئے۔ وہ صرف قیام و استحکامِ حق کے لیے شہید ہوا ہے اور اس لیے اُس کی ہستی توحید کی بنیاد ہوگئی۔ اس نے سینۂ صحرا پر توحید کا نقش ثبت کیا اور گویا ہماری بخشش اور نجات کی سطر لکھ دی۔