• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان پاکستان کا ایک ہمسایہ ملک ہے جس کے ساتھ سینکڑوں کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ لیکن تاریخی طور پاک افغان سرحد ہمیشہ سے درد سر رہی ہے۔ کچھ دوستوں کا یہ خیال ہے کہ پاک افغان تنازعات کی تاریخ 1979ء سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ برصغیر اور افغانستان کے مابین جنگ و جدل کا سلسلہ تقسیم ہند سے بھی پہلے کا جاری ہے۔ برصغیر کی مغربی سرحد ہمیشہ سے حملہ آوروں کی گزرگاہ رہی ہے۔ تیمور نے جب ہندوستان پر حملہ کیا، اس وقت ہندوستان پر تغلق خاندان کی حکومت تھی۔ لیکن یہاں کم و بیش ایک لاکھ انسان قتل کر دیئے گئے اور ہندوستان سے خوراک کا اتنا ذخیرہ لے گئے جو کئی سال کیلئے انہیں کافی تھا۔ بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اس وقت ابراہیم لودھی کی حکومت تھی۔ اس نے یہاں سے واپس جانے کی بجائے یہیں رہنے کو ترجیح کہ ہندوستان جیسی سونے کی چڑیا کو چھوڑ کر وہ کسی بے آب و گیاہ ملک میں کیوں جائے۔ اور حقیقت میں ہندوستان مغلوں کیلئے سونے کی چڑیا ثابت ہوا۔ احمد شاہ ابدالی تو جب بھی بر صغیر پر حملہ آور ہوتا تو مورخین کے مطابق وہ ایک ایک روٹی تک چھین کر لے جاتا۔ تب کے متحدہ پنجاب میں یہ محاورہ معروف تھا ’’کھادا پیتا لاہے دا، باقی احمد شاہے دا‘‘یعنی باقی سب کچھ احمد شاہ لوٹ کے لے جائیگا ہمیں صرف وہی بچے گا جو ہم کھا لیں گے۔ برصغیر میں جب بھی کوئی فصل پکنے کا وقت آتا تو مغربی سرحد سے کوئی نہ کوئی حملہ آور آتا اور پکی پکائی فصل لوٹ کر چلا جاتا۔ 1947ء میں جب پاکستان نے ایک آزاد ریاست کے طور پر جنم لیا تو دنیا کے نقشے پر افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد افغانستان میں بھی کئی انقلاب آئے۔ پچاس کی دہائی میں سوشلسٹ انقلاب آیا جسے انقلاب ثور بھی کہا جاتا ہے اور نور محمد ترکئی کی حکومت قائم ہوئی۔ یہ روس نواز حکومت تھی جس نے ہمیشہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی۔ نور محمد ترکئی کے بعد حفیظ اللہ امین سربراہ مملکت بنے تو سوویت یونین کو مذہبی بغاوت کے خطرات کی بو آئی۔ اس نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کر دیں۔ ایک خوفناک جنگ کے بعد حفیظ اللہ امین مارا گیا اور سویت حمایت یافتہ ببرک کارمل افغانستان کا حکمران بنا۔ یہ وہ وقت تھا جب افغانستان کے معاملات میں پاکستان کا عمل دخل شروع ہوا۔ 1979ء میں افغان عوام نے سوویت یونین کیخلاف مزاحمت کا آغاز کیا۔ پاکستانی حکومت اور عوام نے انکی بھرپور مدد کی۔ اپنی سرحدیں ان کیلئے کھول دیں۔ ایران کے برعکس انہیں نہ صرف پاکستان میں ہر جگہ اپنے قدم جمانے کا موقع دیا بلکہ کئی کاروباروں پر افغانوں کا تسلط قائم ہو گیا۔ اس افغان جنگ کے نتیجے میں پاکستان کی سماجی زندگی شدید متاثر ہوئی۔ ملک میں کلاشن کوف کلچر عام ہوا۔ بڑی طاقتوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے پاکستان کو میدان جنگ بنا لیا۔ اسی جنگ کے دوران پاکستان میں پہلی مرتبہ دہشت گردی کی اصطلاح متعارف ہوئی۔یوں افغانوں کی مدد کرتے کرتے ایک ہنستا بستا پاکستان بارود کا ڈھیر بن کر رہ گیا۔طالبان حکومت کا قیام، نائن الیون کے بعد کی جنگ،اور پاکستان میں بدامنی، انفراسٹرکچر کی تباہی،دہشت گردی کا فروغ، ایسی تاریخی حقیقتیں ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جا سکتا،نائن الیون سے شروع ہونے والی امریکی جنگ کا اختتام کچھ اس طرح سے ہوا کہ امریکہ نے اپنے اہداف حاصل کر لئے اور افغانستان کو بے یار و مددگار چھوڑ کر اپنے ملک چلا گیا۔بھارت نے وہاں اپنی جڑیں مضبوط کر لیں۔کابل جلال آباد اور قندھار سمیت متعدد افغان شہروں میں اپنے قونصل خانے قائم کئے۔جہاں سے مسلسل پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کا سلسلہ جاری رہا۔بطور پاکستانی اب ہمارے بھی سوچنے کا وقت ہے کہ ہم کب تک افغانستان کی ناز برداری کرتے رہیں گے،پاکستان نے افغانوں کو پناہ دی،ان کیلئے کاروبار کے مواقع پیدا کئے،ہر سال 30 لاکھ ٹن گندم غیر سرکاری طریقے سے افغانستان پہنچائی گئی،صرف گندم پر ہی کیا موقوف،چاول،چینی،گھی،خوردنی تیل، آلو، پیاز، جوس،مالٹے ، نمک، مرچیں اور سینکڑوں غیر زرعی اشیاء،پاکستان سے ان تک پہنچائی جاتی رہیں،قطر میں مذاکرات کیلئےسہولت کاری کی،افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کیلئے لاجسٹک امداد فراہم کی،اسکے بدلے میں پاکستان کو کیا ملا؟قتل و غارت؟بدامنی؟خاک و خون کا کھیل؟افغان طالبان کی دھمکیاں؟موجودہ افغان حکومت نے ٹی ٹی پی کو حکومت پاکستان کے سامنے لا کھڑا کیا ہے،ان کی جسارت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وہ فاٹا انضمام ختم کرنے کا مطالبہ کرنے لگے،ان کی خواہش یہ ہے کہ فاٹا میں ان کی مسلح واپسی ممکن بنائی جائے،کیا ایک مرتبہ پھر ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی راہ ہموار کی جائے گی؟مسلح افواج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے واضح طور پر پیغام دے دیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگردہشتگرد تنظیمیں جنہیں ملکی سلامتی سے خطرہ ہے ان سے وطن عزیز کو پاک کیا جائے گا۔مسلح افواج نے ایک طویل جدوجہد کے بعد قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کی جڑیں ختم کی ہیں۔اب کالعدم ٹی ٹی پی کی واپسی سے نہ صرف پاکستان کا امن غارت ہوگا بلکہ دہشتگردی کو بھی فروغ ملے گا۔اب ان سب دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں کیساتھ نپٹنے کی ضرورت ہے۔افغانستان میں طالبان حکومت دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ لہٰذا ریاست پاکستان کو اس حوالے سے واضح پالیسی اختیار کرتے ہوئے افغانستان کی ناز برداری ترک کرنا ہوگی۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑتے ہوئے پاکستان کو محفوظ بنانا ہو گا۔

تازہ ترین