دو ہزار تیرہ تک بد ترین لوڈ شیڈنگ کا شکار ملک دو ہزار سترہ تک اس حالت میں لایا جا چکا تھا کہ اس کے متعلق یہ یقین ظاہر کیا جا رہا تھا کہ پاکستان عنقریب جی 20یعنی دنیا کی پہلی بیس بڑی معیشتوں میں اپنی جگہ بنا چکا ہوگا مگر پھر جولائی دو ہزار سترہ آیا اور ترقی کا سفر واپسی کا سفر بنا دیا گیا ۔ قومی معیشت پر ایسا وار کیا گیا کہ وہ آگے کیا بڑھتی الٹا خواب خرگوش میں مبتلا ہو گئی اور اس پر یہ شعبدہ بازی دکھائی جانے لگی کہ جیسے کوئی بہت کمال کیا جا رہا ہے اور کچھ لوگ اس کمال کو دیکھنے میں محو بھی ہو گئے ، شعبدہ بازی چیز ہی ایسی ہے ۔ برسوں قبل جان مارٹن کی کتاب تھرٹی فائیو ایئرز ان دی ایسٹ پڑھی تھی ۔ وہ رنجیت سنگھ کے دور میں لاہور آیا تھا ، ڈاکٹر تھا اور سکھ دربار سے وابستہ ہو گیا تھا ، سکھ سلطنت کے زوال، اٹھارہ سو انچاس تک لاہور میں ہی رہا اور پھر بعد میں پنشن لے کر واپس یورپ چلا گیا ۔ وہ بیان کرتا ہے کہ رنجیت سنگھ کو بتایا گیا کہ پہاڑیوں پر ایک ایسا سادھو موجود ہے جو خود کو موت جیسی حالت دینے پر قادر ہے ۔ اور اگر اسے اس شرط پر زمین میں دفن کر دیا جائے کہ مقررہ وقت پر اس کو نکال لیا جائے گا تو وہ خود کو بغیر کوئی نقصان پہنچائے دوبارہ زندہ کر لیتا ہے مہا راجہ نے یہ کام نا ممکن سمجھا ۔ اس نے حکم دیا کہ سادھو کو دربار میں پیش کر کے اس کےاس فعل کو دیکھا جائے ۔ اس دوران تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں تا کہ اس میں کسی شعبدہ بازی کو پکڑا جا سکے ۔ سادھو نے دربار میں خود پر مکمل سکتہ کی کیفیت طاری کرلی جس میں موت کی تمام علامات موجود تھیں ۔ اس حالت میں وہ کپڑے کے جس ٹکڑے پر بیٹھا ہوا تھا اسی میں لپیٹ دیا گیا اور اس پر مہاراجہ کی مہر لگا کر ایک صندوق میں بند کر دیا گیا جس پر مہاراجہ نے ایک مضبوط تالا لگا دیا ۔ صندوق کو شہر سے باہر واقع وزیر کے ایک کھیت میں دفن کر دیا گیا جس میں جَو بوئے ہوئے تھے ۔ اس کھیت کے چاروں طرف دیوار چنوا کر اس پر سپاہیوں کا پہرہ بٹھا دیا گیا ۔ قبر کشائی چالیس روز بعد ہونا قرار پائی تھی ۔ اس دن دربار کے بہت سارے حکام،انگریز، ڈاکٹر سب وہاں پر موجود تھے ، صندوق قبر سے باہر نکالا گیا تو اس میں سادھو اسی طرح ٹھنڈا اور اکڑا ہوا لیٹا ہوا تھا جس حالت میں اس کو دفن کیا گیا تھا مگر بعد میں وہ پھرزندہ ہو گیا ۔ جان مارٹن نے رنجیت سنگھ کے وزیر راجہ دھیان سنگھ کے حوالے سے بھی بتایاکہ اس سادھو کا نام ہری داس تھا اور میں نے خود اس کو جموں میں چار مہینے دفن رکھا تھا ، انگریزوں نے بھی اس پر یہ تجربہ کیا اور اٹھارہ سو پینتیس کے کلکتہ میڈیکل جرنل نے بھی اس سادھو کے متعلق تفصیل سے لکھا تھا ۔ اب اس کے دوبارہ زندہ ہونے کا منظر کیا ہوتا تھا ؟ ایسے لوگ اپنی زبان کا نچلے جبڑے کے ساتھ جڑا حصہ کاٹ دیتے ہیں اور اس پر مکھن ایسے رگڑتے ہیں کہ یہ لمبی اور نماياں ہو جاتی ہے اور سانس روکنے کے وقت وہ اپنی زبان کو الٹ لیتے ہیں ۔ سادھو کو قبر سے واپس نکالنے کے بعد سب سے پہلا کام اس کی زبان کو واپس اس کی اصلی حالت میں لانا ہوتا ہے ، اس کے بعد دال سے بنی ایک خوش بو دار گرم لئی اس کے سر پر رکھی جاتی ہے ، کانوں اور منہ سے ڈاٹ ہٹا کر پھیپھڑوں میں ہوا پھونکی جاتی ہے ۔ اس عمل سے اس کے نتھنوں میں دیے گئے گولے ایک زور دار آواز کے ساتھ کافی قوت سے باہر آجاتے ہیں اور اسے اس کے دوبارہ زندہ ہونے کی پہلی علامت سمجھا جاتا ہے ، سارے بدن کی مالش کی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ قدرتی طور پر سانس لینا شروع کر دیتا ہے ، آنکھیں کھولتا ہے اور رفتہ رفتہ اپنے حواس میں واپس آجاتا ہے ۔ بس جیسے سادھو ہری داس اپنے بدن پر تجربہ کر کے اس کو موت جیسی کیفیت دے دیا کرتا تھا بالکل اسی کی مانند دو ہزار اٹھارہ کے’’ انتخابات‘‘کے بعد معیشت کے ساتھ بھی تجربہ کیا گیا ، میڈیا کی زبان کاٹ دی گئی اور اس نوعیت کے معاشی فیصلے کئے گئے کہ معیشت سکتے کی حالت میں آ گئی ، قومی معیشت میں نئی روح پھونکنے والے منصو بےسی پیک کو گردن سے پکڑ لیا گیا، اس کو منجمد کرنے کی تجاویز پرکابینہ کے رکن غیر ملکی اخبار میں مضمون تحریر کرکے دینے لگے ، اچھا سی پیک سے ہٹ کر دوسرا ایسا کونسا معاشی منصوبہ تھا یا ہے جو پاکستان کی معیشت کو پٹری پر رکھ سکتا ہے تو اس سوال کا جواب ان کے پاس نہ کوئی تھا اور نہ ہی وہ کوئی جواب تیار کرنا چاہتے تھے سوائے اس کے کہ میں اپنے مخالفین کی جیل سے اس کا اے سی اتر وا دونگا ۔ اب اس ذہنیت کے ساتھ حکومت کرنے کے جو ریاست کو نتائج بھگتنا تھے وہ بھگت رہی ہے ۔ علانیہ اور خوشی سے معیشت میں بارودی سرنگیں بچھانے کا بتانا ، جس آئی ایم ایف کو دو ہزار سولہ میں خدا حافظ کہہ دیا گیا تھا اس کو واپس لایا گیا اور جب حکومت جاتی دیکھی تو جو معاہدہ خود کیا تھا اس کو توڑ پھوڑ دیا تا کہ نئی حکومت معیشت کو سنبھالا نہ دے سکے ، اتنی کینہ پروری؟ حد ہے ، معیشت کو تو سکتے کی حالت میں قبر میں اتار دیا تھا ، اس لئے ہی جب نئی حکومت قائم ہوئی تو اس کے لئے سب سے بڑا مسئلہ قبر کشائی ہی تھا کہ معیشت کے جسم میں دوبارہ سے زندگی کے آثار کو بحال کیا جائے ، دال کی گرم لئی تو سر پر انڈیلنی ہی تھی چاہے جتنی مرضی تکلیف ہو ، نتھنوں کے گولے ہٹنے تھے تو زور دار آوازبھی بلند ہونا ہی تھی ، معاشی بدن کی مالش کے لئے کہیں سے تیل تو لانا ہی تھا چاہے جس سے مانگا جائے وہ جتنے مرضی ترلے کروائے مجبوری تھی مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ دوبارہ سے سکتے میں گئی معیشت کے حواس بحال ہو رہے ہیں اور زندگی محسوس کی جا رہی ہے اور امید ہے کہ اب زندہ ہی رہنے دیا جائے گا ۔ ویسے اس سادھو ہری داس کا بھی اختتام دل چسپ ہوا ، اس کے متعلق شکایات موصول ہوئیں اور اس کو لاہور سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ، سادھو ایک کھیترانی عورت کو بہکا کر ساتھ لے گیا اور پھر پہاڑوں میں ہی مر گیا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)